سورة التَّكْوِیْر : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : پہلی ہی آیت کے لفظ کوِّرَت سے ماخوذ ہے۔ کوِّرَت تکویر سے صیغۂ ماضی مجہول ہے جس کے معنی ہیں لپیٹی گئی۔ اس نام سے مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لپیٹنے کا ذکر آیا ہے۔


زمانۂ نزول :


مضمون اور انداز بیاں سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔


موضوع اور مضمون :


اس کے دو موضوع ہیں ایک آخرت اور دوسرے رسالت۔


پہلی چھ آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جب سورج بےنور ہوجائے گا، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑ زمین سے اکھڑ کر اڑنے لگیں گے، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں کے جانور بدحواس ہو کر اکٹھے ہوجائیں گے اور سمندر بھڑک اٹھیں گے۔ پھر سات آیتوں میں دوسرے مرحلے کا ذکر ہے جب روحیں از سرنو جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی، نامۂ اعمال کھولے جائیں گے، جرائم کی بازپرس ہوگی، آسمان کے سارے پردے ہٹ جائیں گے اور دوزخ جنت سب چیزیں نگاہوں کے سامنے عیاں ہوجائیں گی۔ آخرت کا یہ سارا نقشہ کھینچنے کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس وقت ہر شخص کو خود معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔


اس کے بعد رسالت کا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں اہل مکہ سے کہا گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے، نہ کسی شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے، بلکہ خدا کے بھیجے ہوئے ایک بزرگ، عالی مقام اور امانت دار پیغام بر کا بیان ہے جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلے آسمان کے افق پر دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس تعلیم سے منہ موڑ کر آخر تم کدھر چلے جا رہے ہو؟