سورۃ التکاثر : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام :  پہلی آیت کے لفظ التکاثر کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :


ابو حیان اور شوکانی کہتے ہیں کہ یہ تمام مفسرین کے نزدیک مکی ہے اور امام سیوطی کا قول ہے کہ مشہور ترین بات یہی ہے کہ یہ مکی ہے، لیکن بعض روایات ایسی ہیں جن کی بنا پر اسے مدنی کہا گیا ہے، اور وہ یہ ہیں :


ابن ابی حاتم نے ابو بریدہ (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت انصار کے دو قبیلوں بنی حارثہ اور بنی الحرث کے بارے میں نازل ہوئی۔ دونوں قبیلوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں پہلے اپنے زندہ آدمیوں کے مفاخر بیان کیے، پھر قبرستان جا کر اپنے اپنے مرے ہوئے لوگوں کے مفاخر پیش کیے۔ اس پر یہ ارشاد الٰہی نازل ہوا کہ "الھٰکم التکاثر لیکن شان نزول کے بارے میں صحابہ و تابعین کا جو طریقہ تھا، اس کو اگر نگاہ میں رکھا جائے تو یہ روایت اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ سورۃ تکاثر اسی موقع پر نازل ہوئی تھی، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں قبیلوں کے اس فعل پر یہ سورت چسپاں ہوتی ہے۔


امام بخاری اور ابن جریر نے حضرت ابی بن کعب (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو کہ "لو ان لابن ادم وادیین من مال التمنی وادیا ثالثا ولا یملأ جوف ابن ادم الا التراب۔ (اگر آدم زاد کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھر سکتا)، قرآن میں سے سمجھتے تھے یہاں تک کہ "الھٰکم التکاثر نازل ہوئی"۔ اس حدیث کو سورۃ تکاثر کے مدنی ہونے کی دلیل اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ حضرت ابی مدینے میں مسلمان ہوئے تھے۔ مگر حضرت ابی کے اس بیان سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ صحابہ کرام کس معنی میں حضور {{درود}] کے ارشاد کو قرآن میں سے سمجھتے تھے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ اسے قرآن کی آیت سمجھتے تھے تو یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے، کیونکہ صحابہ کی عظیم اکثریت ان اصحاب پر مشتمل تھی جو قرآن کے حرف حرف سے واقف تھے، ان کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت ہے اور اگر قرآن میں سے ہونے کا مطلب قرآن سے ماخوذ ہونا لیا جائے تو اس روایت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدینۂ طیبہ میں جو اصحاب داخل اسلام ہوئے تھے انہوں نے جب پہلی مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ سورت سنی تو انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ابھی نازل ہوئی ہے، اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مذکورۂ بالا ارشاد کے متعلق ان کو یہ خیال ہوا کہ وہ اسی سورت سے ماخوذ ہے۔ ابن جریر، ترمذی اور ابن المنذر وغیرہ محدثین نے حضرت علی (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں پڑے رہے ہیں یہاں تک کہ "الھٰکم التکاثر نازل ہوئی" اس کو سورۃ تکاثر کے مدنی ہونے کی دلیل اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ عذاب قبر کا ذکر مدینے میں ہی ہوا تھا، مکہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔ مگر یہ بات غلط ہے۔ قرآن کی مکی سورتوں میں بکثرت مقامات پر قبر کے عذاب کا ایسے صریح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے کہ شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام آیت 93، النحل 28، المومنون 99 – 100، المومن 45 – 46۔ یہ سب مکی سورتیں ہیں۔ اس لیے حضرت علی (رض) کے ارشاد سے اگر کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مذکورۂ بالا مکی سورتوں کے نزول سے پہلے سورۃ تکاثر نازل ہوچکی تھی، اور اس کے نزول نے عذاب قبر کے بارے میں صحابہ کے شک کو دور کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان روایات کے باوجود مفسرین کی عظیم اکثریت اس کے مکی ہونے پر متفق ہے۔ یہ سورت صرف مکی ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا مضمون اور انداز بیان یہ بتا رہا ہے کہ یہ مکے کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔

موضوع اور مضمون :


اس میں لوگوں کو اس دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گيا ہے جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک زیادہ سے زیادہ مال و دولت، اور دنیوی فائدے اور لذتیں اور جاہ و اقتدار حاصل کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے، اور انہی چیزوں کے حصول پر فخر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس ایک فکر نے ان کو اس قدم منہمک کر رکھا ہے کہ انہیں اس سے بالاتر کسی چیز کی طرف توجہ کا ہوش ہی نہیں ہے۔ اس کے برے انجام پر متنبہ کرنے کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نعمتیں جن کو تم یہاں بےفکری کے ساتھ سمیٹ رہے ہو، یہ محض نعمتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمہاری آزمائش کا سامان بھی ہیں۔ ان میں سے ہر نعمت کے بارے میں تم کو آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔