سورة الْقِیٰمَة : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : پہلی ہی آیت کے لفظ القِیٰمۃ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے، اور یہ صرف نام ہی نہیں ہے بلکہ اس سورت کا عنوان بھی ہے کیونکہ اس میں قیامت ہی پر بحث کی گئی ہے۔


زمانۂ نزول :


اگرچہ کسی روایت سے اس کا زمانۂ نزول معلوم نہیں ہوتا، لیکن اس کے مضمون میں ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ آیت 15 کے بعد یکایک سلسلۂ کلام توڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جاتا ہے کہ


” اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرات کو غور سے سنتے رہے، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے “

اس کے بعد آیت 20 سے پھر وہی مضمون شروع ہوجاتا ہے جو ابتدا سے آیت 15 تک چلا آ رہا تھا۔ یہ جملۂ معترضہ اپنے موقع محل سے بھی اور روایات کی رو سے بھی اس بنا پر دوران کلام وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبریل (علیہ السلام) یہ سورۃ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا رہے تھے اس وقت آپ اس اندیشے سے کہ کہیں بعد میں بھول نہ جائیں، اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دہراتے جا رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نزول وحی کا نیا نیا تجربہ ہو رہا تھا اور ابھی آپ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اچھی طرح نہیں پڑی تھی۔ قرآن مجید میں اس کی دو مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ ایک سورۃ طٰہٰ میں جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے


” اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے“


دوسرے سورۃ اعلٰی میں جہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ


” ہم عنقریب تم کو پڑھوا دیں گے پھر تم بھولو گے نہیں “


بعد میں جب حضور کو وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق ہوگئی تو اس طرح کی ہدایات دینے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی۔ اسی لیے قرآن میں ان تین مقامات کے سوا اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔


موضوع اور مضمون :


یہاں سے آخر کلام اللہ تک جو سورتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر اپنے مضمون اور انداز بیان سے اس زمانہ کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے جب سورۃ مدثر کی ابتدائی سات آیات کے بعد نزول قرآن کا سلسلہ بارش کی طرح شروع ہوا اور پے در پے نازل ہونے والی سورتوں میں ایسے پر زور اور موثر طریقہ سے نہایت جامع اور مختصر فقروں میں اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا اور اہل مکہ کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کیا گیا جس سے قریش کے سردار بوکھلا گئے اور پہلا حج آنے سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زک دینے کی تدبیریں سوچنے کے لیے انہوں نے وہ کانفرنس منعقد کی (دیکھیے : سورۃ مدثر) 


اس سورت میں منکرین آخرت کو خطاب کر کے ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اور آحرت کے امکان، وقوع اور وجوب کا ثبوت دیا گیا ہے، اور یہ بھی صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی عقل اسے ناممکن سمجھتی ہے، بلکہ اس کا اصل محرک یہ ہے کہ ان کی خواہشات نفس اسے ماننا نہیں چاہتیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو خبردار کردیا گیا ہے کہ جس وقت کے آنے کا تم انکار کر رہے ہو وہ آ کر رہے گا، تمہارا سب کیا دھرا تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا، اور حقیقت میں تو اپنا نامۂ اعمال دیکھنے سے بھی پہلے تم میں سے ہر شخص کو خود معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ سے ناواقف نہیں ہوتا، خواہ وہ دنیا کو بہکانے اور اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے اپنی حرکات کے لیے کتنے ہی بہانے اور عذرات تراشتا رہے۔