سورة الْحَآقَّة : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : سورت کے پہلے ہی لفظ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔


زمانۂ نزول :


یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اور اس کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت تو شروع ہوچکی تھی، مگر اس نے ابھی زیادہ شدت اختیار نہ کی تھی۔ مسند احمد میں حضرت عمر فاروق (رض) کی روایت ہے کہ اسلام لانے سے پہلے ایک روز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ستانے کے لیے گھر سے نکلا مگر آپ مجھ سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہوچکے تھے۔ میں پہنچا تو آپ نماز میں سورۃ الحاقہ پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور سننے لگا۔ قرآن کی شان کلام پر میں حیران ہو رہا تھا کہ میرے دل میں یکایک خیال آیا کہ یہ شخص ضرور شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ فوراً ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے


” یہ ایک رسول کریم کا قول ہے، کسی شاعر کا قول نہیں “


میں نے اپنے دل میں کہا شاعر نہیں تو پھر کاہن ہے۔ اسی وقت زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے


” اور نہ کسی کاہن کا قول ہے۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے “


یہ سن کر اسلام میرے دل میں گہرا اتر گیا۔ حضرت عمر (رض) کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت ان کے قبول اسلام سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی، کیونکہ اس واقعے کے بعد بھی ایک مدت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے اور وقتاً فوقتاً متعدد واقعات ان کو اسلام سے متاثر کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ اپنی بہن کے گھر میں ان کے دل پر وہ آخری ضرب لگی جس نے ان کو ایمان کی منزل پر پہنچا دیا۔ (مزید دیکھیے : سورۃ مریم اور سورۃ واقعہ) 


موضوع اور مضمون :


اس کا پہلا رکوع آخرت کے بیان میں ہے، اور دوسرا رکوع قرآن کے منزَل من اللہ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کے بارے میں۔ پہلے رکوع کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ قیامت کا آنا اور آخرت کا برپا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ضرور پیش آ کر رہنی ہے۔ پھر آیت 4 سے 12 تک یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ہے وہ آخرکار خدا کے عذاب کی مستحق ہو کر رہی ہے۔ اس کے بعد آیت 17 تک قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ کس طرح برپا ہوگی۔ پھر آیت 18 سے 37 تک وہ اصل مقصد بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوع انسانی کے لیے ایک دوسری زندگی مقدر فرمائی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس روز تمام انسان اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں ان کا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا۔ ہر ایک کا نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی تھی کہ ایک دن انہیں اپنے رب کو حساب دینا ہے، اور جنہوں نے دنیا کی زندگی میں نیک عمل کر کے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے پیشگی سامان کرلیا تھا، وہ اپنا حساب پاک دیکھ کر خوش ہوجائیں گے اور انہیں جنت کا ابدی عیش نصیب ہوگا۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے خدا کا حق مانا نہ بندوں کا حق ادا کیا، انہیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔


دوسرے رکوع میں کفار مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اس قرآن کو ایک شاعر اور کاہن کا کلام کہتے ہو، حالانکہ یہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ایک رسول کریم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ رسول اس کلام میں اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹانے یا بڑھانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اگر وہ اس میں اپنی من گھڑت کوئی چیز شامل کر دے تو ہم اس کی رگ گردن (رگ دل) کاٹ دیں۔ یہ ایک یقینی برحق کلام ہے اور جو لوگ اسے جھٹلائیں گے انہیں آخر کار پچھتانا پڑے گا۔