سورة نُوْح : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : نوح اس سورت کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں از اول تا آخر حضرت نوح (علیہ السلام) ہی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔


زمانۂ نزول :


یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر اس کے مضمون کی داخلی شہادت اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ کے مقابلہ میں کفار مکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کرچکی تھی۔


موضوع اور مضمون :


اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ محض قصہ گوئی کی خاطر بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وہی رویہ اختیار کر رہے ہو جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم نے اختیار کیا تھا، اور اس رویے سے اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا جو ان لوگوں نے دیکھا۔ یہ بات پوری سورت میں کہیں صاف الفاظ میں نہیں کہی گئی لیکن جس موقع پر اور جن حالات میں یہ قصہ اہل مکہ کو سنایا گیا ہے اس پس منظر میں خود بخود یہ مضمون اس سے مترشح ہوتا ہے۔


پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب اللہ تعالیٰ نے رسالت کے منصب پر مامور فرمایا تھا اس وقت کیا خدمت ان کے سپرد کی گئی تھی۔


آیت 2 – 4 میں مختصراً یہ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کس طرح کیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے کیا بات پیش کی۔ پھر مدتہائے دراز تک دعوت و تبلیغ کی زحمتیں اٹھانے کے بعد جو روداد حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ آیت 5 – 20 میں بیان کی گئی ہے۔ اس میں وہ عرض کرتے ہیں کہ کس کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی کوششیں کیں اور قوم نے ان کا مقابلہ کس ہٹ دھرمی سے کیا۔


اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی آخری گزارش آیات 21 – 24 میں درج کی گئی ہے جس میں وہ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں کہ یہ قومی میری بات قطعی طور پر رد کرچکی ہے، اس نے اپنی نکیل اپنے رئیسوں کے ہاتھ میں دے دی ہے، اور انہوں نے بہت بڑا مکر کا جال پھیلا رکھا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں سے ہدایت کی توفیق سلب کرلی جائے۔ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف سے کسی بےصبری کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ صدیوں تک انتہائی صبر آزما حالات میں تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے بعد جب وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہوگئے تو انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ اب اس قوم کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ یہ رائے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے کے مطابق تھی۔ چنانچہ اس کے متصلاً بعد آیت 25 میں ارشاد ہوا ہے کہ اس قوم پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگیا۔


آخری آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ دعا درج کی گئی ہے جو انہوں نے عین نزول عذاب کے وقت اپنے رب سے مانگی تھی۔ اس میں وہ اپنے لیے اور سب اہل ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اپنی قوم کے کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو زمین پر بسنے کے لیے جیتا نہ چھوڑا جائے، کیونکہ ان کے اندر اب کوئی خیر باقی نہیں رہی ہے، ان کی نسل سے جو بھی اٹھے گا کافر اور فاجر ہی اٹھے گا۔


اس سورت کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہئیں جو اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہوچکی ہیں۔ ملاحظہ ہو الاعراف (آیات 59 تا 64) یونس (آیات 71 – 73)، ہود (آیات 25 تا 49)، المومنون (آیات 23 تا 31)، الشعراء (آیات 105 تا 122)، العنکبوت (آیات 14 – 15)، الصافات (آیات 75 تا 82)، القمر (آیات 9 تا 16)