سورة النّٰزِعٰت : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : پہلے ہی لفظ النٰزعٰت سے ماخوذ ہے۔


زمانہ نزول :


حضرت عبد اللہ بن عباس کا بیان ہے کہ یہ سورۃ نباء (عم یتسآءلون) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس کا مضمون بھی یہی بتا رہا ہے کہ یہ ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔


موضوع اور مضمون :


اس کا موضوع قیامت اور زندگی بعد موت کا اثبات ہے اور ساتھ ساتھ اس بات پر تنبیہ بھی کہ خدا کے رسول کو جھٹلانے کا انجام کیا ہوگا۔


آغاز کلام میں موت کے وقت جان نکالنے والے، اور اللہ کے احکام کو بلا تاخیر بجا لانے والے، اور حکم الٰہی کے مطابق ساری کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتوں کی قسم کھا کر یقین دلایا گیا ہے کہ قیامت ضرور واقع ہوگی اور موت کے بعد دوسری زندگی ضرور پیش آ کر رہے گی۔ کیونکہ جن فرشتوں کے ہاتھوں آج جان نکالی جاتی ہے، انہی کے ہاتھوں دوبارہ جان ڈالی بھی جا سکتی ہے، اور جو فرشتے آج اللہ کے حکم کی تعمیل بلا تاخیر بجا لاتے اور کائنات کا انتظام چلاتے ہیں، وہی فرشتے کل اسی خدا کے حکم سے کائنات کا یہ نظام درہم برہم بھی کرسکتے ہیں اور ایک دوسرا نظام قائم بھی کرسکتے ہیں ۔


اس کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ یہ کام، جسے تم بالکل ناممکن سمجھتے ہو، اللہ تعالیٰ کے لیے سرے سے کوئی دشوار کام ہی نہیں ہے جس کے لیے کسی بڑی تیاری کی ضرورت ہو۔ بس ایک جھٹکا دنیا کے اس نظام کو درہم برہم کر دے گا، اور دوسرا جھٹکا اس کے لیے بالکل کافی ہوگا کہ دوسری دنیا میں یکایک تم اپنے آپ کو زندہ موجود پاؤ۔ اس وقت وہی لوگ جو اس کا انکار کر رہے تھے، خوف سے کانپ رہے ہوں گے اور سہمی ہوئی نگاہوں سے وہ سب کچھ ہوتے دیکھ رہے ہوں گے جس کو وہ اپنے نزدیک ناممکن سمجھتے تھے۔ پھر حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصہ مختصراً بیان کر کے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ رسول کو جھٹلانے اور اس کی ہدایت و رہنمائی کو رد کرنے اور چالبازیوں سے اس کو شکست دینے کی کوشش کا کیا انجام فرعون دیکھ چکا ہے۔ اس سے عبرت حاصل کر کے اس روش سے باز نہ آؤ گے تو وہی انجام تمہیں بھی دیکھنا پڑے گا۔


اس کے بعد آیت 27 سے 33 تک آخرت اور حیات بعد الموت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے منکرین سے پوچھا گیا ہے کہ تمہیں دوبارہ پیدا کر دینا زیادہ سخت کام ہے یا اس عظیم کائنات کو پیدا کرنا جو عالم بالا میں اپنے بےحد و حساب ستاروں اور سیاروں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے؟ جس خدا کے لیے یہ کام مشکل نہ تھا اس کے لیے تمہاری بار گرد تخلیق آخر کیوں مشکل ہوگی؟ صرف ایک فقرے میں امکان آخرت کی یہ مسکِت دلیل پیش کرنے کے بعد زمین اور اس سروسامان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو زمین میں انسان اور حیوان کی زیست کے لیے فراہم کیا گیا ہے اور جس کی ہر چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ وہ بڑی حکمت کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ اشارہ کر کے اس سوال کو انسان کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جگہ سوچ کر رائے قائم کرے کہ آیا اس حکیمانہ نظام میں انسان جیسی مخلوق کو اختیارات اور ذمہ داریاں سونپ کر اس کا محاسبہ کرنا زیادہ مقتضائے حکمت نظر آتا ہے، یا یہ کہ وہ زمین ہر طرح کے کام کر کے مر جائے اور خاک میں مل کر ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے اور کبھی اس سے حساب نہ لیا جائے کہ ان اختیارات کو اس نے کیسے استعمال کیا اور ان ذمہ داریوں کو کس طرح ادا کیا ؟ اس سوال پر بحث کرنے کے بجائے آیات 34 – 41 میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب آخرت برپا ہوگی تو انسان کے دائمی اور ابدی مستقبل کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کس نے دنیا میں حد بندگی سے تجاوز کر کے اپنے خدا سے سرکشی کی اور دنیا ہی کے فائدوں اور لذتوں کو مقصود بنا لیا، اور کس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے سے احتراز کیا۔ یہ بات خود بخود اوپر کے سوال کا صحیح جواب ہر اس شخص کو بتا دیتی ہے جو ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر ایمانداری کے ساتھ اس پر غور کرے۔ کیونکہ انسان کو دنیا میں اختیارات اور ذمہ داریاں سونپنے کا بالکل عقلی، منطقی اور اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ اسی بنیاد پر آخر کار اس کا محاسبہ کیا جائے اور اسے جزا یا سزا دی جائے۔


آخر میں کفار مکہ کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ قیامت آئے گی کب؟ یہ سوال وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار کرتے تھے۔ جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے وقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ رسول کا کام صرف خبردار کر دینا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور۔ اب جس کا جی چاہے اس کے آنے کا خوف کر کے اپنا رویہ درست کرلے اور جس کا جی چاہے بےخوف ہو کر شتر بےمہار کی طرح چلتا رہے۔ جب وہ وقت آ جائے گا تو وہی لوگ جو اس دنیا کی زندگی پر مر مٹتے تھے اور اسی کو سب کچھ سمجھتے تھے، یہ محسوس کریں گے کہ دنیا میں وہ صرف گھڑی بھر ٹھہرے تھے۔ اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ اس چند روزہ زندگی کی خاطر انہوں نے کس طرح ہمیشہ کے لیے اپنا مستقبل برباد کرلیا۔