قرآن کریم اور روحانیت

پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی


انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔جسم ایک مادی وجود ہے جسے آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، ہاتھوں سے چھوا جا سکتا ہے اور حواس کے ذریعے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے، جب کہ روح غیرمادی وجود ہے، جسے نہ تو چھو ا جا سکتا ہے اور نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، مگر انسان کے وجود کے لیے اس حد تک لازم ہے کہ جسم اس کے بغیر باقی نہیں رہتا بلکہ فنا ہو جاتا ہے۔ روح کا رشتہ جس لمحے جسم سے منقطع ہوتا ہے انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور وہ مُردہ قرار پاتا ہے۔ جسم اپنی بقا کے لیے روح کا محتاج ہے۔


سوال یہ ہے کہ روح کیا چیز ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟


عصر حاضر کے مغربی مفکرین روح کو بھی مادّی شے سمجھتے ہیں، یعنی جس طرح جسم مادی وجود ہے اسی طرح روح کو بھی مادی وجود تسلیم کرتے ہیں اور ان دونوں مادوں کے اتصال سے انسانی زندگی قائم رہتی ہے۔ روح سے جدا ہوکر جسم گل سڑ جاتا ہے اور روح بھی فنا ہو جاتی ہے ۔ جرمن فلسفی کانٹ کا کہنا ہے کہ: ’’ہم اپنے وجود کے اندر نہ تو مافوق الشعور شے کو تسلیم کر سکتے ہیں اور نہ اس کے اثرات کا تجربہ کر سکتے ہیں ‘‘۔ (Encyclopedia of Religions and Ethics، نیویارک، ۱۹۵۸ء، جلد xi، ص ۸۳)



تاہم یہ خیال بہت پرانا ہے۔ عرب کے مشرکین کا بھی تقریباً یہی خیال تھا کہ انسان کی زندگی مادی وجود کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، چنانچہ ان کا قول نقل کرتے ہوئے قرآن کریم میں آیا ہے:
وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ ۝۰ۚ (الجاثیہ ۴۵:۲۴)وہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اس دنیاکی زندگی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے جہاں ہم جیتے اور مرتے ہیں اور زمانہ ہمیں ہلاک کرتا ہے۔
قرآن کی نظر میں یہ خیال درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا صرف جسم ختم ہوتا ہے، جب کہ روح اپنے پیدا کرنے والے کے حکم سے اس کے پاس چلی جاتی ہے اور انسان کے اچھے برے عمل کے لیے جواب دہ ہوتی ہے۔ قرآن پاک نے صراحت کی ہے:


اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ(البقرہ ۲:۱۵۶) ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔
جسم تو فنا ہو کر مٹی میں مل جاتا ہے، اللہ کی طرف صرف روح جاتی ہے ۔ چنانچہ نیک روحوں کے بارے میں قرآن پاک نے کہا ہے:
يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۝۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۝۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۝۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۝۳۰ۧ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) ’’اے نفس مطمئن لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ اللہ تجھ سے راضی ہو اور تو اللہ سے ، پھر داخل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں ۔
اس روح کی بقا کے راز کو کھولتے ہوئے علامہ اقبال ؒ کہتے ہیںـ:
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے


روح کی حقیقت


محدثین کے یہاں روح لطیف نورانی وجود ہے اور حکما اور صوفیہ کے یہاں روح جوہرِ مجرد ہے۔ روح شکر اور نمک کی طرح نہیں ہے جو پانی میں گھل جائے اور نہ سیاہی اور سفیدی کی طرح وصف ہے جو سیاہ سفید شے میں تحلیل ہو جائے۔ مشہور مفسر قرآن عبداللہ انصاری ؒ نے روح کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
انسان کا جسم دل اور روح کا مجموعہ ہے۔ جسم محل امانت ہے، دل بار گاہ خطاب ہے اور روح نقطہ گاۂ مشاہدہ ہے۔ جو کچھ نعمت کے قبیل سے تھی وہ جسم پر نثار ہوئی جس کی غذا کھانا پینا ہے۔ جو کچھ احسان کے قبیل سے تھی وہ دل کا تحفہ بنی ، جس کی قوت ذکر اور یادِ خدا ہے۔جو کچھ مشاہدات کے قبیل سے تھی وہ روح کے حصے میں آئی ، جس کی غذا دیدارِ دوست ہے۔ جسم قدرت کے قہر میں ہے، دل اس کے قبضے میں اور روح اس کے سایۂ عزت میں ہے۔ (خواجہ عبداللہ انصاری ، کشف الاسرار وعمدۃ الابرار ،ج۵،ص۲۲۶)
یہودیوں کے ایک گروہ نے ایک مرتبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ روح کیا ہے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی آئی :
وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۝۰ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا۝۸۵ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵) وہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ بتا دیجیے کہ روح میرے رب کا امر ہے اور تم لوگوں کو (اس بارے میں ) بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔


قرآن کی نظر میں روح جسم کی طرح مادی شے نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کے لیے مادہ کا محتاج نہیں ہے۔وہ جس چیز کو بنانا چاہتا ہے اس کے بارے میں صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ شے وجود میں آ جاتی ہے:


اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۸۲ (یٰسین ۳۶: ۸۲) وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہوجاتی ہے۔


روح کی حقیقت یہی ہے کہ وہ مادی ڈھانچے میں اللہ کی طرف سے ’ہو جانے‘ کا کلمہ یا حکم ہے۔ جب تک انسان کی حیات مقرر ہے اس وقت تک یہ روح انسانی قالب میں رہتی ہے اور جب یہ مدت تمام ہو جاتی ہے تو روح اس مادی جسم سے نکل کر اپنے پیدا کرنے والے کے یہاں چلی جاتی ہے ۔ اگر یہ بُرے عقیدے وعمل کی حامل رہی ہے تو ’سجیّن ‘ اس کا مقام ہے۔
قرآن پاک میں اس کی وضاحت ان لفظوں میں کی گئی ہے:
يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِہَا وَتُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۱۱۱ (النحل ۱۶:۱۱۱) (ان سب کا فیصلہ اُس دن ہوگا) جب کہ ہرمتنفس اپنے ہی بچائو کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا۔


معلوم یہ ہوا کہ انسان کا وجود اس روح کی وجہ سے قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ اسی کے اتصال سے انسان زندہ ہے اور اسی کے انفصال سے انسان مردہ ہو جاتا ہے ۔ مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
روح کے ساتھ اکثر جگہ قرآن میں ’اس امر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، مثلاً :


قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵) وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۝۰ۭ (الشوریٰ …: ۵۲) يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ (المؤمن ۴۰: ۱۵) يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ (النحل ۱۶: ۲)، امر عبارت ہے کلمۂ کُن سے، یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر وتصریف اس طریقے پر کی جائے جس پر غرض ایجاد وتکوین مرتب ہوا، لہٰذا ثابت ہوا کہ روح کا مبدا حق تعالیٰ کی صفت کلام ہے‘‘۔(ترجمہ قرآن ،مولانا محمود حسن ، تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی (سورۂ بنی اسرائیل ،آیت ۸۵ ،حاشیہ ۴ ) ،ص ۳۸۷)


علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:


’’ہر چیز میں جو ’کُن ‘ کی مخاطب ہوئی روح حیات پائی جائے۔ بے شک میں یہی سمجھتا ہوں کہ ہر مخلوق کی ہر ایک نوع کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے،یعنی جس کام کے لیے وہ چیز پیدا کی گئی ڈھانچا تیار کرکے اس کو حکم دینا ’کُن ‘ (اس کام میں لگ جا ) بس یہی اس کی روح حیات ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۸۸)
اللہ تعالیٰ نے یوں تو تمام اشیا کو مادہ سے پیدا کیا اور ہر جان دار کو اس کے مقصدِ تخلیق اور کام کے لحاظ سے قالب عطا کیا اور جان عطا کی۔ اسی طرح انسان کا قالب بھی مٹی سے بنایا مگر اس کو روحِ خاص عطا کی۔
جب تک انسان مٹی کا پتلا تھا، یعنی صرف مادی وجود رکھتا تھاوہ کسی حیثیت کا مالک نہ تھا۔ جب اللہ نے اس قالب میں اپنی روح ڈال دی تو وہ قابلِ احترام ا ور لائق تعظیم ہو گیا اور وہ مسجود ملائک بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدایش کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:


اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ۝۷۱ فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝۷۲ فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ كُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ۝۷۳ۙ اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ (صٓ ۳۸: ۷۱-۷۴) اور یاد کرو وہ وقت جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان کا قالب بنانے جارہا ہوں تو جب میں اسے مکمل کردو ں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدہ میں گر جائو،چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سواے ابلیس کے۔


یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ جب میں ا س مٹی کے قالب میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اسے سجدہ کرنا۔ یعنی انسان اپنے مادی وجود کی وجہ سے قابلِ تعظیم نہ تھا، بلکہ اس روح کی بدولت قابلِ تعظیم اور سز وارِ سجدہ ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اس کے قالب میں پھونک دی۔


روحِ انسانی جسم کو صرف زندہ اور متحرک ہی نہیں رکھتی بلکہ اسے فکرو شعور ، تصور خیال اور علم وعمل سے بھی مزین کرتی ہے ۔ اسی لیے روح کی معرفت حاصل کرنا اور اس کی پاکیزگی کے لیے جدوجہد کرنا روحانیت کہلاتی ہے۔ عام طور پر لوگ جسم کی افزایش اور آرایش پر وقت اور سرمایہ صرف کرتے ہیں،عمدہ غذا ، خوش نما لباس اور اچھے مکان سے جسمانی راحت حاصل کرتے ہیں۔ جسم کی اس افزایش میں عموماً روح نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ دیکھنے میں صحت مند اور طاقت ور آدمی اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ روحانی طور پر اس بیمار انسان کے بارے میں کہا گیا ہے:
منظر سیاہ پوش نہ پیکر جلا ہوا
ہر شخص اپنی ذات کے اندر جلا ہوا


روحانی دنیا


انسان کی بیرونی دنیا جو جسم کی سیر گاہ ہے جتنی وسیع اور حسین ہے اس سے کہیں زیادہ وسیع اور خوب صورت اندرونی دنیا ہے، جو روح کا محل ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل نے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے:
ستم است گر ہوست کشد بسیر سروسمن در آ
تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ در دل کشا بچمن در آ
[یہ ستم ہے کہ تیری ہوس تجھے باغ وچمن کی سیر کے لیے اُکساتی ہے، تم غنچہ سے کسی طرح کم درخشاں نہیں ہو، دل کا دروازہ کھول لو اور اس چمن میں داخل ہو جائو ]۔
انسان باہر کی دنیا کو کبھی حسرت اور کبھی شوق بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرتا ہے اور پوری زندگی کھپا دیتا ہے ،مگر روحانی دنیا کی قدروقیمت سے بے خبر رہتا ہے، حالاں کہ پیدا کرنے والے رب نے اپنی خلاقی ، رزاقی اور کبریائی کی علامتیں کائنات کے ساتھ خود انسان کے اندرون میں پوشیدہ کر دی ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے:ـ
وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۝۲۰ۙ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۲۱ (الذاریات ۵۱:۲۰-۲۱) یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں نشانیاں ہیں اور خود تمھاری ذات میں نشانیاں ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟
قرآن پاک نے روح کو نفس سے بھی تعبیر کیا ہے اور اسی کو اچھائی اور برائی ، نیکی اور بدی کا محل قرار دیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا۝۷۠ۙ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا۝۹۠ۙ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا۝۱۰ۭ (الشمس ۹۱:۷-۱۰) اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھراس کی اس بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی ، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔


٭معرفت نفس :


قرآن پاک کی مذکورہ تعلیم کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ روحانیت کی پہلی منزل یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرے۔ نفس کی معرفت حاصل کرنا گویا رب کی معرفت حاصل کرنا ہے ، چنانچہ حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ عَرَفَ رَبَّہٗ ( محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی ، المقاصد الحسنۃ ، ص ۱۹۸ )
جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کی، اس نے گویا خدا کی معرفت حاصل کر لی ۔
انسان کا نفس اگرچہ ایک جوہر ہے مگر احوال واعمال کے لحاظ سے اس کی تین حالتیں ہیں۔ اس لیے اسے تین ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر نفس نور الٰہی سے منور ہو، اس کی عبادت میں شادکام ہو اور اس کے احکام کی بجا آوری میں مسرور ومطمئن ہو تو اسے ’نفس مطمئنہ ‘ کہا جاتا ہے۔ اگر گناہ کی ظلمت میں نفس گھرا ہوا ہو، کبھی کبھی بدی کی طرف مائل ہو مگر کبھی نیکی کی طرف مائل ہو اور بُرائی سے اجتناب کرتا ہو، معاصی پر ندامت محسوس کرتا ہو اور اپنے آپ کو ملامت کرتا ہو، تو اسے ’نفس لوامہ ‘ کہا جاتا ہے ۔
تیسرا پہلو نفس امارہ ہے۔ یہ وہ نفس ہے جو انسان کو بُرائیوں پر اُکساتا ہے۔
قرآن پاک نے نفس کو ان تینوں ناموں سے یا د کیا ہے۔
روحانیت کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان نفس کی تمام حالتوں سے اور جملہ حرکتوں سے باخبر ہو، اس کے میلانات سے واقف ہو، اس کے شر ور وفتن سے آگاہ ہو اور ان کے اثرات کا اسے علم ہو۔


٭ ضبطِ نفس :


روحانیت کی دوسری منزل ضبط نفس ہے ۔ معرفت نفس کے بعد روح کا تقاضا یہ ہے کہ حرص وہوس اور خواہشات نفس پر قابو رکھا جائے ۔ خواہش انسان وحیوان دونوں میںمشترک ہے۔ دونوں خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں، خواہ یہ خواہش پیٹ بھرنے کی ہو یا جنسی آسودگی کی ہو۔ حیوان خواہشات کی تکمیل میں حدود و قیود اور حرام وحلال کی تمیز نہیں رکھتا ۔ اسے پیٹ بھرنے کے لیے اور جنس کی آگ بجھا نے کے لیے جو کچھ اور جتنا کچھ ملے اس کی ہوس میں مبتلا رہتا ہے، جب کہ انسان بھی شکم اور جنس کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔ اگر بے قید ہو کر اس کی تکمیل کرتا ہے تو اس میں اورجانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ حیوان کی طرح پست ہوتا ہے یا اس سے بھی گرا ہو۔ اور اگر اس کی تسکین شرعی ضابطے کے تحت کرتا ہے تو روحانی بلندی حاصل کرتا ہے اور فرشتہ صفت بن جاتا ہے ۔ حیوان بے عقل اور نادان ہے اور فرشتہ دانا اور زیرک ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے انسان کو جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے عقل مند اور دانا انسان قرار دیا ہے، اور جو خواہشات کا غلام بن جاتا ہے اسے نادان اور عاجز فرمایا ہے:
اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعْ نَفْسَہٗ ھَوَاھَا وَتَمَــنّٰی عَلَی اللہِ (سنن ترمذی ) عقل مند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرتا ہے اور آخرت کے لیے عمل کرتا ہے، اور عاجز انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے حوالے کر دیتا ہے اور اللہ سے تمنائیں کرتا رہتا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے آخرت کی کامیابی اور ناکامی اور جنت وجہنم کا فیصلہ خواہشات نفس کی تعدیل اور تکمیل پر موقوف کیا ہے ۔ ارشاد ہے:
فَاَمَّا مَنْ طَغٰى۝۳۷ۙ وَاٰثَرَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۳۸ۙ فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰى۝۳۹ۭ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۝۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۝۴۱ۭ (النازعات ۷۹:۳۷-۴۱) توجس نے سر کشی کی تھی اور دنیا کو ترجیح دی تھی ، دوزخ اس کا ٹھکانا ہوگا اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہو گی۔
انسان جب حیوان کی طرح خواہشات ِنفس کے پیچھے چلتا ہے اوران کا اسیر ہو جاتاہے تو یہی خواہش خدا کی جگہ لے لیتی ہے۔ انسان حقیقی خدا کی فرماں برداری کی جگہ خواہشِ نفس کی فرماں برداری کرنے لگتا ہے اور نفس پرستی اس کا مقصد بن جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بندۂ نفس کی ملامت کرتے ہوئے کہا ہے :
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا۝۴۳ۙ (الفرقان ۲۵:۴۳) ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا آپ اس کی ذمہ داری لے سکتے ہیں؟ ‘‘
خواہش نفس کی بندگی اللہ کی بندگی کے منافی ہے ۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :
لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکَوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ (مشکوٰۃ المصابیح ) تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔
نفس کی منہ زور خواہشات کی اتباع شیطانیت ہے اور ترک خواہشات روحانیت ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اس نکتے کو حسب ذیل شعر میںبیان کیا ہے:
نفس و شیطان ہر دویک تن بودہ اند
در دو صورت خویش رابنموددہ اند
[نفس اور شیطان دونوں ایک قالب ہیں اور دوصورتوں میں اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہیں]۔


روحانیت کا اعلٰی مقصد


انسان اپنے نفس پر قابو پا سکتا ہے، جب کہ اس کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصد ہو۔ وہ اپنی خواہشات کو ترک اسی وقت کر سکتا ہے، جب کہ اسے کسی بڑے نصب العین تک پہنچنا مطلوب ہو۔ یہ اعلیٰ مقصد اورپاکیزہ نصب العین خالقِ کائنات ، مالکِ برحق اور معبودِ حقیقی کی رضا اور خوش نودی کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ ۝۰ۭ وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰۷ ( البقرہ۲: ۲۰۷)اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی جان کو اللہ کی مرضی کے عوض بیچتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔
مولیٰ کی مرضی اور اللہ کی خوش نودی کی خاطر خواہشات دنیا کا سودا کرنے والے مومنوں کا حال قرآن میں بیان کیا گیا ہے:


زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ۝۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ ۝۰ۭ وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۱۵ۚ(اٰل عمران ۳:۱۴-۱۵ ) لوگوں کے لیے مرغوب ومزین کر دی گئی ہے، عورتوں ، بیٹوں، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتی کی محبت ، یہ دنیا کی زندگی کا حقیر سامان ہے، کہہ دیجیے کہ کیا بتائوں تم کو اس سے بہتر چیز ، جن لوگوں نے پرہیز گاری کی زندگی اختیار کی ان کے لیے ان کے رب کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ،اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی ہو گی اور اللہ اپنے بندوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔


حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے اللہ کی رضا میں اپنی خواہشات کو فنا کر دینے کی حکمت ان لفظوں میں بیان کی ہے:
رضا گم اپنی کر اس کی رضا میں
نہ پڑ ہرگز خودی کی تو بَلا میں
بس اب اللہ بس اللہ بس ہے
سوا اس کے جو ہے باقی ہوس ہے


-------------------------------
تاریخ اشاعت : دسمبر 2018 ، 
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، بانی سید ابوالاعلی مودویؒ ،