ارشاد باری تعالی ہے :
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا
( سورۃ الاحزاب: 72 )
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بےشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں سید ابوالاعلی مودودی ؒ لکھتے ہیں :
" کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بےفکری کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے۔
اس جگہ " امانت " سے مر اد وہی " خلافت " ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اسے اپنی بےشمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے۔ یہ اختیارات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے، اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو " خلافت " کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہاں انہی کے لیے " امانت " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے۔
زمین و آسمان کے سامنے اس بار امانت کا پیش کیا جانا، اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہوسکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے، بہرے اور بےجان ہیں، ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہوں۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کرسکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بار گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بےاختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں، ہماری ہمت نہیں ہے کہ نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سزا بر داشت کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کو دائرۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کرسکتا ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو۔
البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ٥۔ ٦ فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ :
" میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تری کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے، ورنہ وہ میرا انکار بھی کرسکے گا اور میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہوں۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا، بڑی قابلیتیں عطا کروں گا، اور اپنی بےشمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا، تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی برپا کرنا چاہے کرسکے۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آزادی کو غلط استعمال کیا ہوگا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے، اور جس نے نافرمانی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہوگی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلوق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اترنے کو تیار ہے " ؟
یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کرتی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے۔ آخر کار یہ مشت استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں۔
یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بےفکر بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کرتا ہے ان کے صحیح یا غلط ہونے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں، اسی کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے۔ وہ جہول ہے، کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے۔ اور وہ ظلوم ہے، کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے۔"
---------
تفہییم القرآن جلد چہارم سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :120