احسن القصص سب سے بہترین قصہ

سورہ یوسف کا نام قرآن میں احسن القصص (سب سےبہترین قصہ ) آیا ہے اس سورہ کے نزول کے بارے میں روایت ہے کہ یہودیوں کے اشارے پر کفار مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلّم کا امتحان لینے کے لیے، آپ کے سامنے  یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب تھا ؟ اس سوال کےجواب میں اللہ تعالی نے سورہ یوسف نازل فرمایا ۔
احسن القصص

اس سورہ کو احسن القصص اس لحاظ سے کہاگیا کہ انسانی زندگی کے تمام بنیادی کردارں کو اس سورت میں اس خوبی سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر ایک کردار کی حقیقت نکھر کر سامنے آگئی ہے ، اس قصہ میں زندگی کے ان تمام مسائل کو بیان کیا گیا ہے جن کا انسان اور انسانی معاشرہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ اس میں توحید کے دلائل ، خوابوں کی تعبیر ، سیاسی مسائل ، معاشرہ کی بپچیدگیاں ، معاشی اصلاح کی تدابیر ، غرضکہ تمام وہ امور جو دین ، اخلاق اور دنیا کی اصلاح میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں بڑی عمدگی اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی سورت میں بیان کردیے گئے ہیں ۔ قصہ کا آغازیوسف ؑ کے ایک خواب کے ذکر سے ہوتا ہے پھر اختتام بھی اسی خواب کے ذکر سے ہوتا ہے ۔ گویا پورا قصہ حضرت یوسف ؑ کے خواب کی عملی تعبیر پر مشتمل ہے ۔ 

اس کی تفصیل یوں ہے کہ ابراہیم ؑ کی نسل بنی اسحاق ؑ، جس کی اہم شاخ بنی یعقوب ( اسرائیل) ہے،اللہ تعالی نے ان کی نسل سے عظیم قومیں پید اکیں ۔ انہیں سے نبوت کا سلسلہ آگے چلا ۔ ابراہیم ؑ کے پوتے یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے ، جوشام اور مصر میں آبادہوئے۔ ان میں جلیل القدر انبیاءاور بادشاہ پیدا ہوئے ۔ بنی یعقوب یعنی بنی اسرائیل کے اس سلسلہ نبوت کا سب سے پہلے نبی حضرت یوسف ؑ ہیں ۔ 

بائیبل کے مطابق یعقوب ؑ کی چار بیویاں تھیں ،جن سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ۔ ان چارمیں سے ایک سے یوسف ؑ اور ان کے چھوٹے بھائی بنیامین پیدا ہوئے ۔ علمائے بائیبل کی تحقیق کے مطابق یوسف ؑ کی پیدائش تقریبا 1906 قبل مسیح میں ہوئی ۔ یوسف ؑ جب سترہ سال کے تھے۔ تو ان کے بھائیوں نے ان سے حسد کرتے ہوئے ان کو کنویں میں بھینکا ، ایک قافلے نے ان کو کنویں سے نکال کر مصر لے جاکر عزیز مصر کو فروخت کردیا ۔ 

مصر پر اس زمانہ میں عربی النسل قوم کے پندرھویں خاندان کی حکومت تھی ۔ جو چرواہے بادشاہوں کے نام سے مشہور تھے ۔ یہ لوگ ابراہیم ؑ کے زمانہ سے سلطنت مصر پر قابض تھے ۔ علماء بائیبل کے مطابق یوسف ؑ کے ہم عصر فرمانروا کا نام اپوفیس ( Apophis) تھا ۔ 

یوسف ؑ ستر ہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں مصر پہنچے ۔ تقریبا تین سال عزیز مصر کے گھر میں اور نو سال جیل میں گزارے ۔ تقریبا تیس سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا بنے ۔اور اسّی سال کی عمر تک تمام مملکت مصر پر حکومت کی ۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال اپنے پورے خاندان کو فلسطین کا علاقہ کنعان سے مصر بلالیا ، اورجُشَن نام علاقے میں ان کو آباد کیا ۔ حضرت موسی ؑ کے زمانہ تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائیبل کے مطابق ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی ۔ اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ" جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے جانا ۔" یہ لوگ پندرھویں صدی قبل مسیح کے اختتام تک وہاں حکمران رہے ۔ اس کے بعد ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی ، جس نے ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا ،۔ ایک نہات متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آگیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں غیر قبطیوں کو ملک سے نکال دیے گئے۔ پھر بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع ہوا ، جن کا ذکر موسی ؑ کے واقعات میں ملتا ہے ۔ 

یوسف ؑ حسن ظاہر و حسن باطن دونوں کے جامع تھے ۔ لیکن ان کا اصلی حسن ان کی آزمائشوں میں نمایاں ہوا ہے ۔ وہ بیک وقت ذہانت ، پاکیزگی ، نبوت ، پاکدامنی،بادشاہی ، اور قدرت کےباوجودعفو و درگزر کی ایک زندہ جاوید مثال ہیں ۔ 

----------- 

یوسف ؑ کا واقعہ قرآن مجید میں ایک منفرد انداز میں آیا ہے ۔ اس سے مشابہ صرف موسی ؑ کا واقعہ ہے لیکن وہ بھی مکمل نہیں ، اس اعتبار سے ہے کہ موسی ؑ کے واقعات بھی بچپن سے نبوت تک تسلسل سے بیان ہوا ہے ۔ دونوں نبیوں کےواقعات میں خاص بات یہ ہے کہ یوسف ؑ کے ذریعے بنی اسرائیل مصر میں داخل ہوئے تھے اور موسی ؑ کے ذریعے وہاں سے اللہ کے عذاب سے بچکر نکل آئے ۔ 

یوسف ؑ کے قصہ میں دو متضادکردار بہت نمایاں ہیں ۔ ایک طرف یوسف ؑ کے آباؤ و اجداد ابراہیم ؑ ، اسحاق ؑاور یعقوب ؑکی ملت ابراہیمی ؑ کی پیروی ہے ۔ اور دوسری طرف برادران یوسف ؑ ، قافلہ تاجران ، عزیز مصر ، اس کی بیوی ، و بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ہیں ۔ دونوں کردار کےمابین کشمکش کے ساتھ قصہ اپنے اختتام تک پہنچتا ہے ۔ ایک وہ کردار ہیں جو عقیدۂ توحید ، اطاعت الہی سے عبارت ہیں ۔ اور دوسرے جاہلیت ، دنیا پرستی ، شرک و کفر پر مبنی ہیں ۔ 

عام طور پر لوگ ان قصوں سے بہت دلچسپی لیتے ہیں جن میں کچھ حسن و عشق کی جاشنی ہو، لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بھی متاثر کرتے ہیں ، البتہ قصہ یوسف ؑ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی چاشنی بھی ہے اور پھر پورا قصہ ، یوسف ؑ کے اعلی کردار وصفات کا ایک مرقع ہے ۔ تمام نازک مواقع اور آزمائشوں میں یوسف ؑ نے اپنی اعلی فطرت کے جوہر نمایاں کیے ۔ ان کے وہ کردار ایسے شاندار ہیں کہ پڑھنے والےکے اندر اس کی تقلید کا جذبہ پیداکردیتا ہے ۔ 

اس قصہ میں جو سب سے اہم سبق قاری کو ملتا ہے یہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے ہر صورت وہ ہوکر رہتا ہے ۔ انسان اپنی تدبیروں سے اللہ کے منصوبوں اور فیصلوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ برادران یوسف ؑ کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ اپنے معصوم بھائی کو کنویں میں بھینک کر شاہ مصر کے تخت پر پہنچار ہے ہیں ۔ اور نہ عزیز مصر کی بیوی کو یہ خبر تھی کہ وہ اپنے زر خرید غلام کو قید خانہ بھیجواکر تخت سلطنت پہنچنے کا راستہ صاف کررہی ہے ۔ بالآخر اللہ تعالی اپنے منصوبے کے مطابق برادران یوسف ؑ کو اپنی ندامت اور شرمساری کے ساتھ اپنے بھائی یوسف ؑ کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کردیتے ہیں اور اسی طرح عزیز مصر کی بیوی کو اپنی خیانت کے سرعام اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں ملتا ۔ بیشک اللہ جسے عزت دینا چاہے ساری دنیا ملکر اس کو ذلیل نہیں کر سکتی ، اور جس کو ذلیل کرنا چاہے تو ساری دنیا بھی ملکر اس کو ذلت سے نہیں بچا سکتی ۔ 

مثلاابھی یوسف ؑ کی سترہ سال عمر ہے وہ تن تنہا ، اجنبی ملک میں غلام کی حیثیت سے اپنے کردار کا آغاز کرتے ہیں ، اس پر مزید ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگاکر انہیں جیل بھیج دیے جاتے ہیں ۔ جس کے لیےمدت سزا کا بھی کوئی تعین نہ تھا ۔ اس حالت تک پہنچنے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اعلی اخلاق کی بدولت پھر اٹھتے ہیں بالآخر پورے ملک کو اپنی شخصیت ، اعلی اخلاق و کردار کی تاثیر سے مسخر کرلیتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کا بادشاہ ایک خواب دیکھتا ہے، یوسف ؑ کے سوا اس کی درست تعبیر کوئی نہیں دے سکا ، اس پر بادشاہ مہربان ہوکران کو جیل سے بری کردیتا ہے ۔ اسی زمانہ میں مصر اپنی تاریخ کے بدترین قحط سے دوچار تھا ۔ بادشاہ اس قحط سے نبرد آزما ہونے کے لیے یوسف ؑکو پہلے وزیر خزانہ مقرر کرتا ہے پھر حکومت کے سارے اختیارات انہیں سونپ دیتا ہے ۔ اس طرح یوسف ؑ کنعان میں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں سب سے پہلے کنویں میں پھر تاجروں کے ذریعے عزیز مصر کے گھر پھر جیل پہنچ جاتے ہیں پھر بادشاہ مصر کےحکم سے جیل سے رہا ہوکر مصر کےتخت پر براجمان ہوتے ہیں ۔ 

اللہ تعالی کی اسکیم کے مطابق اس طرح مصر میں بنی اسرائیل کو اقتدار حاصل ہو جاتا ہے ، یہ پیغمبر یعقوب ؑ کی اولاد تھے ۔ ان کے لیڈر یوسف ؑ تھے جن کی بدولت مصر میں بنی اسرائیل کے قدم جمے ۔ یوسف ؑ کی وفات کے بعد پانچ صدی تک ملک میں اقتدار انہیں لوگوں کے ہاتھ میں رہا ۔ اس دوران انہوں نے دین اسلام کی خوب تبلیغ کی ۔

قرآن میں بنی اسرائیل کی اسی عظمت اور اقتدار کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ملتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے: 

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (الانعام : 47)

" اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اُس نعمت کو ، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی"

"یہ اُس دَور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دُنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علمِ حق تھا اور جسے اقوامِ عالم کا امام و رہنما بنا دیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگیِ ربّ کے راستے پر سب قوموں کو بُلائے اور چلائے۔" ( تفہیم القرآن جلد اول سورہ بقرہ : حاشیہ نمبر69:  سید ابوالاعلی مودودی ؒ )
 
اب ان تفصیلات کے بعد سورہ یوسف کا اردو ترجمہ پڑھیں !

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(الف، لام، را، یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں ۔ یہ کتاب ہم نے عربی زبان  میں   پڑھنے کے لے نازل کیا ہے  تاکہ تم (عرب ) لوگ سمجھو۔
ہم آپ(ﷺ)  کو ایک  بہترین قصہ  جیسے اس قرآن کو  وحی کے زریعے آپ پر نازل  کیا ہے سناتے ہیں ۔اگرچہ آپ  اس سے پہلے بے خبر ہی تھے ۔
جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا :
" ابا جان! میں نے خواب میں گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ مجھے  سجدہ کر رہے ہیں۔"

تو انہوں  نے کہا :
" میرے بیٹے! تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا  ورنہ  وہ تمھارے خلاف کوئی سازش کریں گے ۔ حقیقت میں شیطان انسان کا پکا  دشمن ہے۔اور اسی طرح تیرا  رب تجھے  (اپنا نبی ) منتخب کرے گا اور تمہیں خواب کی تعبیر  سکھائے گا اور تم  اور آل یعقوب  پر اپنا خاص فضل فرماے گا جس طرح  پہلے تمھارے باب دادا  ابراہیم اور اسحاق پر فضل فرما یا ۔ یقیناً تمہارا  رب علم  حکمت والاہے۔"

یوسف اور اس کے بھائیوں کے  قصے  میں  پوچھنے والوں کے لے بڑی نشانیاں ہیں۔جب  سب بھائیوں نے آپس میں کہا:
"کہ ہمارے بابا  ، یوسف اور اس کے بھائی کو  ہم سے زیادہ چاہتے ہیں ۔ حالاں کہ ہم ہی طاقتور  ہیں۔ یقیناً ہمارے بابا صریح  غلطی کررہے ہیں ۔یوسف کویا تو  قتل کردو یا اس کو کسی جگہ چھوڑ آؤ  تاکہ تمھارے بابا تمہاری طرف  توجہ دے ۔ اور اس کے بعد نیک لوگ بن کے رہنا۔"

ان میں سے ایک نے کہا :
" یوسف کو قتل نہ کرو۔ اگر تم کچھ کرنے ہی والے ہو تو اس کو کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو۔ (شاید) کسی قافلہ  کے ہاتھ لگ جائے گا ۔"

انھوں نے اپنے باپ سے کہا:
"ابا جان ! کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے۔ حالاں کہ ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں ۔
کل اس کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے،تاکہ وہ کھائے  پیے اور کھیلےکودے، اور ہم اس کا خیال رکھیں گے  ۔"

باپ نے کہا،:
"میں اس سے غمگین ہوتا ہوں کہ تم اس کو لے جاؤ اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ اس کو کوئی بھیڑیا کھا جائے جب کہ تم اس سے غافل ہو۔"

انھوں نے کہا:
" کہ اگر اس کو بھیڑ یا کھا گیا جب کہ ہم ایک پوری جماعت ہیں، تو ہم بڑے خسارے والے ثابت ہوں گے۔"

پھر جب وہ اس کو لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ اس کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کو وحی کی کہ تو ان کو ان کا یہ کام جتائے گا اور وہ تجھ کو نہ جانیں گے۔اور وہ شام کو اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔اور  کہا:
"اے ہمارے باپ!  ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا۔ پھر اس کو بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے، چاہے ہم سچے ہوں ۔"

اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کرلے آئے۔ باپ نے کہا:
 نہیں بلکہ تمھارے نفس نے تمھارے لئے ایک بات بنا دی ہے۔ اب صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو بات تم ظاہر کر رہے ہو، اس پر اللہ ہی سے مدد مانگتا ہوں ۔"

اور ایک قافلہ آیا تو انھوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا۔ اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا۔ اس نے کہا، 
"خوش خبری ہو، یہ تو ایک لڑکا ہے۔"

 اور اس کو تجارت کا مال سمجھ کر محفوظ کرلیا۔ اور اللہ خوب جانتا تھا جو وہ کر رہے تھے۔اور انھوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت، چند درہم کے عوض بیچ دیا۔ اور وہ اس سے بےرغبت تھے۔اور اہل مصر میں سے جس شخص نے اس کو خریدا، اس نے اپنی بیوی سے کہا؛
" اس کو اچھی طرح رکھو۔ امید ہے کہ وہ ہمارے لئے مفید ہو یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں۔"

 اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں جگہ دی۔ اور تاکہ ہم اس کو باتوں کی تاویل سکھائیں۔ اور اللہ اپنے کام پر غالب رہتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔اور جب وہ اپنی پختگی کو پہنچا، ہم نے اس کو حکمت اور علم عطا کیا۔ اور نیکی کرنے والوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔
اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھا، وہ اس کو پھسلانے لگی اور ایک روز اس عورت نے دروازے بند کر دئے اور بولی :
" آجاؤ"

 یوسف نے کہا :
"اللہ کی پناہ! وہ میرا آقا ہے، اس نے مجھ کو اچھی طرح رکھا ہے۔ بےشک ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔"

اور عورت نے اس کا ارادہ کرلیا اور وہ بھی اس کا ارادہ کرتا اگر وہ اپنے رب کی برہا ن نہ دیکھ لیتا۔ ایسا  اس لے ہوا تاکہ ہم اس سے برائی اور بےحیائی کو دور کر دیں۔ بےشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے۔ اور عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا۔ اور دونوں نے اس کے شوہر کو دروازے پر پایا۔عورت بولی:
 "جو آپ کی گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ اسے قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے۔"

یوسف بولا :
" اسی نے مجھے پھسلانے کی کوشش کی۔"

 اور عورت کے کنبہ والوں میں سے  کسی نے گواہی دی:
" اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے۔اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے۔"

پھر جب عزیز نے دیکھا کہ اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو اس نے کہا:
" بےشک یہ تم عورتوں کی چال ہے۔ اور تمھاری چالیں بہت بڑی ہوتی ہیں ۔"
یوسف، اس سے درگزر کرو۔ اور اے عورت! تو اپنی غلطی کی معافی مانگ۔ بےشک تو ہی خطا کار تھی۔"

اور شہر کی عورتیں کہنے لگیں:
" عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ وہ اس کی محبت میں فریفتہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کھلی ہوئی غلطی پر ہے۔"

پھر جب اس نے ان کا فریب سنا تو اس نے ان کو بلا بھیجا۔ اور ان کے لئے ایک مجلس تیار کی اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دی اور یوسف سے کہا :
" تم ان کے سامنے آؤ۔ "

پھر جب عورتوں نے اس کو دیکھا تو وہ دنگ رہ گئیں۔ اور انھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے۔ اور انھوں نے کہا :
"حاشاﷲ! یہ آدمی نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔"

اس نے کہا "
"یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھ کو ملامت کر رہی تھیں اور میں نے اس کو رجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ بچ گیا۔ اور اگر اس نے وہ نہیں کیا جو میں اس سے کہہ رہی ہوں تو وہ قید میں پڑے گا اور ضرور بےعزت ہوگا۔"

یوسف نے کہا:
" اے میرے رب، قید خانہ مجھ کو اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے بلا رہی ہیں۔ اور اگر تو نے ان کے فریب کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں میں سے ہوجاؤں گا۔"

پس اس کے رب نے اس کی دعا قبول کرلی اور ان کے فریب کو اس سے دفع کردیا۔ بےشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔پھر نشانیاں دیکھ لینے کے بعد ان لوگوں کی سمجھ میں آیا کہ ایک مدت کے لئے اس کو قید کر دیں ۔اور قید خانہ میں اس کے ساتھ دو اور جوان داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے (ایک روز) کہا:
" میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں "

اور دوسرے نے کہا :
" میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جس میں سے چڑیاں کھا رہی ہیں۔ ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تم نیک لوگوں میں سے ہو۔"

یوسف نے کہا:
" جو کھانا تم کو ملتا ہے، اس کے آنے سے پہلے میں تمھیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ اس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے۔ میں نے ان لوگوں کے مذہب کو چھوڑا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ لوگ آخرت کے منکر ہیں۔ اور میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب کی پیروی کی۔ ہم کو یہ حق نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ہمارے اوپر اور سب لوگوں کے اوپر مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔اے میرے جیل کے ساتھیو، کیا جدا جدا کئی معبود بہتر ہیں یا اللہ اکیلا زبردست۔تم اس کے سوا نہیں پوجتے ہو مگر کچھ ناموں کو جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے اس کی کوئی سند نہیں اتاری۔ اقتدار صرف اللہ کے لئے ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر بہت لوگ نہیں جانتے۔"
"اے میرے قید خانہ کے ساتھیو، تم میں سے ایک اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ اور جو دوسرا ہے، اس کو سولی دی جائے گی۔ پھر پرندے اس کے سر میں سے کھائیں گے۔ اس امر کا فیصلہ ہوگیا جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔"

اور یوسف نے اس شخص سے کہا جس کے بارے میں اس نے گمان کیا تھا کہ وہ بچ جائے گا :
" اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا۔"

پھر شیطان نے اس کو اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا۔ پس وہ قید خانہ میں کئی سال پڑا رہا ۔اور بادشاہ نے کہا :
" میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور دوسری سات سوکھی بالیاں، اے دربار والو، میرے خواب کی تعبیر مجھے بتاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دیتے ہو۔"

وہ بولے:
" یہ خیالی خواب ہیں۔ اور ہم کو ایسے خوابوں کی تعبیر معلوم نہیں ۔"

ان دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اس کو ایک مدت کے بعد یاد آیا، اس نے کہا :
" میں تم لوگوں کو اس کی تعبیر بتاؤں گا، پس مجھ کو (یوسف کے پاس) جانے دو۔"
"یوسف اے سچے دوست :" مجھے اس خواب کا مطلب بتا ئیں !کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اور سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی۔ تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں کہ وہ جان لیں ۔"

یوسف نے کہا:
" تم سات سال تک برابر کھیتی کرو گے۔ پس جو فصل تم کاٹو، اس کو اس کی بالیوں میں چھوڑ دو مگر تھوڑا سا جو تم کھاؤ۔پر اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے۔ اس زمانہ میں وہ غلہ کھالیا جائے گا جو تم اس وقت کے لئے جمع کرو گے، بجز تھوڑا سا جو تم محفوظ کرلو گے۔پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر مینھ برسے گا۔ اور وہ اس میں رس نچوڑیں گے۔"

اور بادشاہ نے کہا:
" اس کو میرے پاس لاؤ۔ "

پھر جب قاصد اس کے پاس آیا تو اس نے کہا:
" تم اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ میرا رب تو ان کے فریب سے خوب واقف ہے۔"

بادشاہ نے پوچھا:
" تمھارا کیا ماجرا ہے جب تم نے یوسف کو پھسلانے کی کوشش کی تھی۔"

 انھوں نے کہا :
"حاشاﷲ! ہم نے اس میں کچھ برائی نہیں پائی۔"

 عزیز کی بیوی نے کہا :
"اب حق کھل گیا۔ میں نے ہی اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بلاشبہ وہ سچا ہے۔یہ اس لئے کہ (عزیز مصر) یہ جان لے کہ میں نے در پردہ اس کی خیانت نہیں کی۔ اور بےشک اللہ خیانت کرنے والوں کی چال کو چلنے نہیں دیتا۔اور میں اپنے نفس کی برأت نہیں کرتا۔ نفس تو بدی ہی سکھاتا ہے، الا یہ کہ میرا رب رحم فرمائے۔ بےشک میرا رب بخشنے والا، مہربان ہے۔"

اور بادشاہ نے کہا:
" اس کو میرے پاس لاؤ۔ میں اس کو خاص اپنے لئے رکھوں گا۔"

 پھر جب یوسف نے اس سے بات کی تو بادشاہ نے کہا:
" آج سے تم ہمارے یہاں معزز اور معتمد ہوئے۔"

یوسف نے کہا :
" مجھ کو ملک کے خزانوں پر مقرر کردو۔ میں نگہبان ہوں اور جاننے والا ہوں ۔"

اور اس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں با اختیار بنا دیا۔ وہ اس میں جہاں چاہے جگہ بنائے۔ ہم جس پر چاہیں اپنی عنایت متوجہ کر دیں۔ اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔اور آخرت کا اجر کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، ایمان اور تقویٰ والوں کے لئے۔اور یوسف کے بھائی مصر آئے پھر وہ اس کے پاس پہنچے، پس یوسف نے ان کو پہچان لیا۔اور انھوں نے یوسف کو نہیں پہچانا۔ اور جب اس نے ان کا سامان تیار کردیا تو کہا:
" اپنے سوتیلے بھائی کو بھی میرے پا س لے آنا۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں غلہ بھی پورا ناپ کر دیتا ہوں اور بہترین میزبانی کرنے والا بھی ہوں ۔اور اگر تم اس کو میرے پاس نہ لائے تو نہ میرے پاس تمھارے لئے غلہ ہے اور نہ تم میرے پاس آنا۔"

انھوں نے کہا :
" ہم اس کے بارے میں اس کے باپ کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور ہم کو یہ کام کرنا ہے۔"

اور اس نے اپنے کارندوں سے کہا :
" ان کا مال ان کے اسباب میں رکھ دو، تاکہ جب وہ اپنے گھر پہنچیں تو اس کو پہچان لیں، شاید وہ پھر آئیں ۔"
پھر جب وہ اپنے باپ کے پاس لوٹے تو کہا:
" اے باپ، ہم سے غلہ روک دیا گیا، پس ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ جانے دے کہ ہم غلہ لائیں اور ہم اس کے نگہبان ہیں ۔"

یعقوب نے کہا،:
"کیا میں اس کے بارے میں تمھارا ویسا ہی اعتبار کروں جیساکہ اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تمھارا اعتبار کرچکا ہوں۔ پس اللہ بہتر نگہبان ہے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔"

اور جب انھوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی بھی ان کو لوٹا دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا:
" اے ہمارے باپ، اور ہم کو کیا چاہئے۔ یہ ہماری پونجی بھی ہم کو لوٹا دی گئی ہے۔ اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لئے رسد لائیں گے۔ اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے۔ اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ اور زیادہ لائیں گے۔ یہ غلہ تو تھوڑا ہے۔"

یعقوب نے کہا،:
"میں اس کو تمھارے ساتھ ہرگز نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھ سے خدا کے نام پر یہ عہد نہ کرو کہ تم اس کو ضرور میرے پاس لے آؤ گے، الا یہ کہ تم سب گھِر جاؤ۔

 پھر جب انھوں نے اس کو اپنا پکا قول دے دیا، اس نے کہا:
"  جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے۔"

اور یعقوب نے کہا :
"اے میرے بیٹو، تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔ اور میں تم کو اللہ کی کسی بات سے نہیں بچاسکتا۔ حکم تو بس اللہ کا ہے۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔"

اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے ان کو ہدایت کی تھی، وہ ان کو نہیں بچا سکتا تھا اللہ کی کسی بات سے۔ وہ بس یعقوب کے دل میں ایک خیال تھا جو اس نے پورا کیا۔ بےشک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔اور جب وہ یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھا۔ کہا :
"میں تمھارا بھائی (یوسف) ہوں۔ پس غمگین نہ ہو اس سے جو وہ کر رہے ہیں ۔"

پھر جب ان کا سامان تیار کرا دیا تو پینے کا پیالہ اپنے بھائی کے اسباب میں رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکارا :
" اے قافلہ والو، تم لوگ چور ہو۔"

انھوں نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
" تمھاری کیا چیز کھوئی گئی ہے۔"

انھوں نے کہا:
" ہم شاہی پیمانہ نہیں پا رہے ہیں۔ اور جو اس کو لائے گا اس کے لئے ایک بار شتر غلہ ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ۔"

انھوں نے کہا:
" خدا کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم لوگ اس ملک میں فساد کرنے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہم کبھی چور تھے۔"

انھوں نے کہا:
" اگر تم جھوٹے نکلے تو اس چوری کرنے والے کی سزا کیا ہے۔"

انھوں نے کہا:
" اس کی سزا یہ ہے کہ جس شخص کے اسباب میں وہ ملے، پس وہی شخص اپنی سزا ہے۔ ہم لوگ ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۔"

پھر اس نے اس کے (چھوٹے) بھائی سے پہلے ان کے تھیلوں کی تلاشی لینا شروع کیا۔ پھر اس کے بھائی کے تھیلے سے اس کو برآمد کرلیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کی۔ وہ بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہیں لے سکتا تھا مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں۔ اور ہر علم والے سے بالا تر ایک علم والا ہے۔انھوں نے کہا :
"اگر یہ چوری کرے تو اس سے پہلے اس کا ایک بھائی بھی چوری کرچکا ہے۔"

 پس یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں رکھا، اور اس کو ان پر ظاہر نہیں کیا۔ اس نے اپنے جی میں کہا،

" تم خود ہی برے لوگ ہو، اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو، اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔"

انھوں نے کہا :
" اے عزیز، اس کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے سو تو اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لے۔ ہم تجھ کو بہت نیک دیکھتے ہیں ۔"

اس نے کہا:
" اللہ کی پناہ کہ ہم اس کے سوا کسی کو پکڑیں جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے۔ اس صورت میں ہم ضرور ظالم ٹھہریں گے۔"

جب وہ اس سے نا امید ہوگئے تو وہ الگ ہو کر باہم مشورہ کرنے لگے۔ ان کے بڑے نے کہا :
"کیا تم کو معلوم نہیں کہ تمھارے باپ نے اللہ کے نام پکا اقرار لیا اور اس سے پہلے یوسف کے معاملہ میں جو زیادتی تم کرچکے ہو، وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ پس میں اس زمین سے ہرگز نہیں ٹلوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا اللہ میرے لئے کوئی فیصلہ فرما دے۔ اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔تم لوگ اپنے باپ کے پاس جاؤ اور کہو کہ اے ہمارے باپ، تیرے بیٹے نے چوری کی اور ہم وہی بات کہہ رہے ہیں جو ہم کو معلوم ہوئی اور ہم غیب کے نگہبان نہیں ۔اور تو اس بستی کے لوگوں سے پوچھ لے جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے پوچھ لے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ اور ہم بالکل سچے ہیں ۔"

باپ نے کہا:
" بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے، پس میں صبر کروں گا۔ امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لائے گا۔ وہ جاننے والا، حکیم ہے۔"

اور اس نے رخ پھیر لیا اور کہا:
" ہائے یوسف"

 اور غم سے اس کی آنکھیں سفید پڑگئیں۔ وہ گھٹا گھُٹا رہنے لگا۔انھوں نے کہا:
" خدا کی قسم، تو یوسف ہی کی یاد میں رہے گا۔ یہاں تک کہ گھل جائے یا ہلاک ہوجائے۔"

اس نے کہا:
"میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"
"اے میرے بیٹو، جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ اللہ کی رحمت سے صرف منکر ہی نا امید ہوتے ہیں ۔"

پھر جب وہ یوسف کے پاس پہنچے، انھوں نے کہا:
" اے عزیز، ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے اور ہم تھوڑی پونجی لے کر آئے ہیں، تو ہم کو پورا غلہ دے اور ہم کو صدقہ بھی دے۔ بےشک اللہ صدقہ کرنے والوں کو اس کا بدلہ دیتا ہے۔"

اس نے کہا:
" کیا تم کو خبر ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا جب کہ تم کو سمجھ نہ تھی۔"

انھوں نے کہا:
" کیا سچ مچ تم ہی یوسف ہو۔"

 اس نے کہا ہاں،:
"میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر فضل فرمایا۔ جو شخص ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"

بھائیوں نے کہا:
" خدا کی قسم، اللہ نے تم کو ہمارے اوپر فضیلت دی، اور بےشک ہم غلطی پر تھے۔"

یوسف نے کہا:
" آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔"
"تم میرا یہ کرتا لے جاؤ اور اس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو، اس کی بینائی پلٹ آئے گی اور تم اپنے گھر والوں کے ساتھ میرے پاس آ جاؤ۔"

اور جب قافلہ (مصر سے) چلا تو اس کے باپ نے (کنعان میں ) کہا :
" اگر تم مجھ کو بڑھاپے میں بہکی بہکی باتیں کرنے والا نہ سمجھو تو میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں ۔"

لوگوں نے کہا:
" خدا کی قسم، تم تو ابھی تک اپنے پرانے غلط خیال میں مبتلا ہو۔"

برادران یوسف نے کہا:
" اے ہمارے باپ، ہمارے گنا ہوں کی معافی کی دعا کیجئے۔ بےشک ہم خطاوار تھے۔"

یعقوب نے کہا،:
"میں اپنے رب سے تمھارے لئے مغفرت کی دعا کروں گا۔ بےشک وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔"

پس جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا۔ اور کہا
" مصر میں انشاء اللہ امن چین سے رہو۔"

اور اس نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب اس کے لئے سجدے میں جھک گئے۔ اور یوسف نے کہا:
" اے باپ، یہ ہے میرے خواب کی تعبیر جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے رب نے اس کو سچا کردیا اور اس نے میرے ساتھ احسان کیا کہ اس نے مجھے قید سے نکالا اور تم سب کو دیہات سے یہاں لایا بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال دیا تھا۔ بےشک میرا رب جو کچھ چاہتا ہے اس کی عمدہ تدبیر کرلیتا ہے، وہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔"
"اے میرے رب، تو نے مجھ کو حکومت میں سے حصہ دیا اور مجھ کو باتوں کی تعبیر کرنا سکھایا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، تو میرا کار ساز ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ مجھ کو فرماں برداری کی حالت میں وفات دے اور مجھ کو نیک بندوں میں شامل فرما۔"

یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں اور تم اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے، جب یوسف کے بھائیوں نے اپنی رائے پختہ کی اور وہ تدبیریں کر رہے تھے۔
اور تم خواہ کتنا ہی چاہو، اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔
اور تم اس پر ان سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے۔ یہ تو صرف ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لئے۔

اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔

(ایک حساس ذہن کے لے یہ نشانیاں دراصل تخلیق فن کے باعث ہوتے ہیں )
اور اکثر لوگ جو خدا کو مانتے ہیں، وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی ٹھہراتے ہیں ۔
کیا یہ لوگ اس بات سے مطمئن ہیں کہ ان پر عذاب الٰہی کی کوئی آفت آ پڑے یا اچانک ان پر قیامت آجائے اور وہ اس سے بےخبر ہوں ۔
کہو یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔
اور ہم نے تم سے پہلے مختلف بستی والوں میں سے جتنے رسول بھیجے، سب آدمی ہی تھے۔ ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، کیا تم سمجھتے نہیں ۔
یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کو ہماری مدد آ پہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔
ان کے قصوں میں سمجھ دار لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ یہ کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں، بلکہ تصدیق ہے اس چیز کی جو اس سے پہلے موجود ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی۔ اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔