اصحاب کھف ، مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ

اصحاب کھف

 مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ 

عربی زبان میں " کہف " وسیع غار کو کہتے ہیں اور " غار " کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر اردو میں غار ، کہف کا ہم معنی ہے۔
اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد  ٤٥٢ء  میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ٤٧٤ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب " تاریخ زوال و سقوط دولت روم " کے باب ٣٣ میں " سات سونے والوں " (Seven Slee pers) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈیسِیس (Decius) تھا جس نے ٢٤٩ سے ٢٥١ تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح (علیہ السلام) کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں، اور گِبن اس کا نام اِفِسُس (ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ٹرکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے ٢٠۔ ٢٥ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں ۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈو سیس (Theodosious) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کرلینے کے بعد ٤٠٨ سے ٤٥٠ تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ (Jamblichus) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال (یعنی تقریباً ٤٤٥ یا ٤٤٦ ء میں ) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح (علیہ السلام) کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ١٩٦ سال بنتی ہے۔ بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ٣٠٩ سال بیان کر رہا ہے۔
اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر " جہالت " کا الزام لگایا ہے، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہوجایا کرتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس   جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ (قرآن میں اصل واقعہ یوں ہے )
۔۔۔جب وہ سچے دل سے ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ان کو یہ توفیق بخشی کہ حق اور صداقت پر ثابت قدم رہیں، اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لینا گوارا کرلیں مگر باطل کے آگے سر نہ جھکائیں ۔
جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر افسُس ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوں کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل، فال گیر اور تعویذ نوید دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان ephesus شرد اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ کہ " اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑگیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔"

سریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالم آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کرچکے تھے، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقت ور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ افسس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ (جسے صدوقی کہا جاتا تھا ) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ گروہ کتاب اللہ (یعنی توراۃ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ متی، مرقس، لوقا، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح (علیہ السلام) کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا، مگر تینوں نے مسیح (علیہ السلام) کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو مری باب ٢٢۔ آیت ٢٣۔ مرقس باب ١٢۔ آیت ١٨۔ ٢٧۔ لوقاباب ٢٠۔ آیت ٢٧۔ ٤٠) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک ناقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا۔
یعنی جب(اصحاب کھف میں سے )  وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان تہذیب، تمدن، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آگیا تھا۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج، لباس، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سریانی روایت کی رو سے دکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دو سو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی۔

(قرآن مجید کے )فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا لگا دو، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں۔
اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہوچکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے، اور مسیح، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ٤٣١ میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہوچکی تھی جس میں مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت اور حضرت مریم علیہا السلام کے " مادر خدا " ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔

مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھہرا کر مقبر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں :
لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسرج۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔ " اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔
"الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاءھم مساجد فانی انھٰکم عن ذٰلک "(مسلم) خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔ "لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآءھم مساجد" (احمد، بخاری، مسلم، نَسائی) " اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔
"اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ" (احمد، بخاری، مسلم، نسائی) " ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کرسکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟
اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی از فائدہ نہیں کہ ١٨٣٤ ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل (Arundeil) نے ایشیائے کوچک کے اکتشافات " (Discoveries in Asia Mino) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور " سات لڑکوں " (یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں ۔

اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبۃً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے، اور امتداد زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس " عادت جاریہ " کو لوگ " قانون فطرت " سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ درحقیقت اس کا پابند نہیں ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے، اور اس کی عمر، شکل، صورت، لباس، تندرستی، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں۔ اصحاب کہف کو جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کردیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں۔ ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے، اور ان کے نام کیا کیا تھے، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے۔
(اس بارے میں  )سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ " کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا،۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں "۔ اس عبارت میں ٣ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی قول۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے۔ اگر ٣٠٩ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے۔


(ماخوذ از  تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ کھف ، سید ابوالاعلی مودودیؒ  )