فہم دین کی اصل بنیاد

اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے ۔ ایک اللہ کا کلام ۔ دوسرے انبیاء علیہم السلام کی شخصیتیں جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ اور تفہیم کا واسطہ بنایا ، بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشاء پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاسرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر صالح کر دکھائیں ۔ 


یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے ایسی لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الک کرکے نہ انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہوسکا ، اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا ۔ کتاب کو نبی سے الگ کر دیجئے تو وہ ایک کشتی ہے ناخدا کے بغیر جسے لیکر اناڑی مسافر زندگی کے سمندر میں خواہ کتنے ہی بھٹکتے پھریں منزل مقصود پر کبھی نہیں پہنچ سکتے ۔ اور نبی کو کتاب سے الگ کر دیجئے تو خدا کا راستہ پا نے کی بجائے آدمی ناخدا ہی کو خدا بنا بیٹھنے سے کبھی نہیں بچ سکتا ۔ یہ دونوں ہی نتیجے پچھلی قومیں دیکھ چکی ہیں ۔ یہودیوں نے اپنے انبیاء کی سیرتوں کو گم کیا اور صرف کتابیں لے کر بیٹھ گئے ۔ انجام یہ ہوا کہ کتابیں ان کے لیے لفظی گورکھ دھندوں سے بڑھ کر کچھ نہ رہیں ۔ حتی کہ آخر کا ر خود انہیں بھی وہ گم کربیٹھے ۔ عیسائیوں نے کتاب کو نظر انداز کرکے نبی کا دامن پکڑا، اور اس کی شخصیت کے گرد گھومنا شروع کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی چیز انہیں نبی اللہ کو ابن اللہ بلکہ عین اللہ بنانے سے باز نہ رکھ سکی ۔ 


پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمت اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں جو ازل سے چلے آرہے ہیں ۔ ایک خدا کلام جو اب صرف قرآن پاک کی صور ت ہی میں مل سکتا ہے ، دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صر ف محمد عربی ﷺ کی سیرت پاک ہی میں محفوظ ہے ۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر ہو سکتا ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمدﷺ سے اور محمد ﷺ کو قرآن سے سمجھے ۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا اس نے اسلام کو سمجھا ۔ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجۂ ہدایت سے بھی۔ 

پھر قرآن اور محمد ﷺ دونوں چونکہ ایک مشن رکھتے ہیں ، ایک مقصد و مدعا کو لیے ہوئے آئے ہیں ، اس لیے ان کو سمجھنے کا انحصار اس پر ہے کہ ہم ان کے مشن او ر مقصد و مدعا کو کس حد تک سمجھتے ہیں اس چیز کو نظر انداز کرکے دیکھیے تو قرآن عبارتوں کا ایک ذخیر ہ اور سیرت پا ک واقعات و حوادثات کا ایک مجموعہ ہے ، آپ لغت اور روایات اور علمی تحقیق و کاوش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگا سکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا ڈھیر لگا سکتے ہیں ، مگر روح دین تک نہیں پہنچ سکتے ، کیونکہ وہ عبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جس کے لیے قرآن اتارا گیا اور محمد عربی ﷺ کو اس کی علمبرداری کے لیے کھڑا کیا گیا ۔ اصل مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا ، اتناہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح اور جتنا وہ ناقص ہو گا ، اتنا ہی ان دونوں کا فہم ناقص رہے گا ۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور سیرت محمدی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام دونوں ہی بحر ناپید ا کنار ہیں ۔ کونی انسان یہ چاہے کہ ان کے تمام معانی اور فوائد و برکات کا احاطہ کرے تو اس میں کبھی کا میاب نہیں ہوسکتا ۔ البتہ جس چیز کی کوشش کی جاسکتی ہے وہ بس یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو آدمی ان کا زیادہ سے زیادہ صحیح فہم حاصل کر ے اور ان کی مدد سے روح دین تک رسائی پائے ۔ 



(حوالہ : یہ سید ابو الاعلی مودودی ؒ کا ایک دیباچہ ہے جس کو نعیم صدیقی کی کتاب " محسن انسانیت ﷺ " کے لے 18 مئی 1960 کو لاہور میں لکھا ہے )