گناہ کا سر چشمہ

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

" انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے کوئی مجرم اور فسادی وجود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نہایت اچھی صلاحیتوں اور نہایت اعلی قابلیتوں کے ساتھ پیدا کیا یہ اگر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ یہ کوئی ازلی و ابدی گناہگار ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اختیار کی اس نعمت کو جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو مشرف فرمایا ہے، غلط استعمال کرنے کے فتنہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ 

اس فتنہ میں اس کو شیطان مبتلا کرتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی وسیع آزادی پر جو پابندیاں عائد کردی ہیں، شیطان انسان کو ورغلاتا ہے کہ پس یہی پابندیاں ہیں جو اس کے سارے عیش وآرام کو کرکرا کیے ہوئے ہیں، اگر وہ ان کو جرات کر کے توڑ ڈالے تو بس اس کے لیے ترقی و کمال اور عیش و آرام کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں۔

 شیطان کے ان مشوروں کا فائدہ چوں کہ انسان کو نقد نقد نظر آتا ہے اس وجہ سے وہ اس کے چکمے میں آجاتا ہے اور اپنی فطرت کے اعلی تقاضوں کے خلاف گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

 اس گناہ سے اس کو پاک کرنے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے توبہ اور اصلاح کی راہ کھولی ہے۔ چناچہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے جو لغزش صادر ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کے بعد وہ معاف کردی۔ اس کے بعد ان کو اس دنیا میں جو بھیجا تو اس کی وجہ حضرت آدم کو معتوب ہونا نہیں ہے بلکہ محض ان کا امتحان ہے تاکہ وہ شیطان کے مقابل میں اپنی اعلی صلاحیتوں کا ثبوت دیں اور اس کے صلہ میں اس جنت کو پھر حاصل کریں جس سے وہ نکالے گئے۔”


 ( تدبر قرآن جلد اول سورہ بقرہ ص 172)