شیطان کی
پیروی میں مشرکینِ عرب نے کن کن چیزوں کو حرام یا حلال
ٹھہرایا تھا؟
سورہ بقرہ کی آیت 168، يٰٓاَيُّهَا
النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ
اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ١٦٨ "
اے لوگو ! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال طیب ہیں ان کو کھاؤ۔
اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔" (سورہ
بقرہ آیت :168) کی تفسیر میں مولانا امیں احسن اصلاحی صاحب
لکھتے ہیں ۔
" چونکہ
خدا کے حکم کے بغیر تحریم و تحلیل شرک ہے اس وجہ سے قرآن میں شرک اور تحریم و تحلیل
کا مضمون جگہ جگہ ایک ساتھ بیان ہوا ہے مثلا سورۃ نحل میں ہے: وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا
لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ (نحل :35)
" اور
مشرک کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی چیز کو پوج سکتے اور نہ
اس کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہرا سکتے۔"
اسی طرح سورۃ انعام آیت 148 میں ہے: سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا
لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلا آبَاؤُنَا وَلا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ (انعام :148)، "یہ مشرک
کہیں گے، اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور ہمارے آباء واجداد کسی چیز کو اس کا شریک
بنا سکتے اور نہ کسی چیز کو حرام ٹھہرا سکتے۔"
اس سے معلوم ہوا کہ شرک اور تحریم و تحلیل دونوں
ایک دوسرے سے متعلق مضمون ہیں۔ اسی تعلق سے آیت زیر بحث میں بھی شرک کی تردید کے
سلسلہ میں یہ بات فرمائی گئی کہ تمام جائز و پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کی پیروی
میں مشرکانہ توہمات کے تحت خدا کی جائز کردہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔رہی یہ بات
کہ شیطان کی پیروی میں مشرکینِ عرب نے اپنے مشرکانہ توہمات کے تحت کن چیزوں کو
حرام یا حلال ٹھہرایا تھا تو اس کی طرف قرآن نے جگہ جگہ اشارے کیے ہیں۔ ہم بعض
مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فرمایا ہے:
"وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ
الْحَرْثِ وَالأنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا
لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا
كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ۔
وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلادِهِمْ
شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ وَلَوْ شَاءَ
اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ۔ وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ
وَحَرْثٌ حِجْرٌ لا يَطْعَمُهَا إِلا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ
حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا
افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ۔ وَقَالُوا مَا فِي
بُطُونِ هَذِهِ الأنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا
وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ
حَكِيمٌ عَلِيمٌ۔ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ
عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا
وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ " (انعام :136-140)
"اور جو کھیتیاں اور
چوپائے خدا کے پیدا کیے ہوئے ہیں ان میں انہوں نے اپنے شرکاء کے ساتھ ساتھ خدا کا
بھی ایک حصہ مقرر کر رکھا ہے۔ کہتے ہیں، یہ تو اللہ کے لیے ہے، ان کے گمان کے
مطابق، اور اتنا ہمارے شرکاء کے لیے ہے۔ تو جو حصہ ان کے شرکاء کا ہوتا ہے وہ تو
اللہ کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا اور جو اللہ کا ہوتا ہے وہ ان کے شرکاء کو منتقل
ہوسکتا ہے، کتنا برا فیصلہ یہ کرتے ہیں ! اسی طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے
شرکاء نے قتل اولاد کو ایک پسندیدہ فعل بنا دیا ہے تاکہ ان کو تباہ کریں اور ان کے
دین کو گھپلا کر کے رکھ دیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو یہ کچھ وہ نہ کر پاتے تو ان کو
اور ان کے اس افترا کو ان کے حال پر چھوڑو۔ اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں چوپائے اور
فلاں فلاں قسم کی فصلیں ممنوع ہیں، ان کو صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جن کو ہم اجازت
دیں۔ ان کے گمان کے مطابق کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کی پیٹھیں حرام قرار دے دی گئی ہیں
اور کچھ پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔ یہ محض اللہ پر ان کا افتراء ہے۔ اللہ ان کو ان
کے اس افتراء کا بدلہ دے گا اور یہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں چوپایوں کے پیٹ میں جو
کچھ ہے وہ صرف ہمارے مردوں ہی کے لیے جائز ہے، ہماری عورتوں کے لیے یہ ناجائز ہے
اور اگر وہ مردار ہو تو دونوں اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اللہ ان کو ان کی اس تشخیص
کا بدلہ چکھائے گا، وہ حکیم وعلیم ہے۔ نامراد ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو
قتل کیا، محض بے وقوفی سے، بغیر کسی علم کے اور اللہ کے بخشے ہوئے رزق کو حرام
ٹھہرایا محض اللہ پر افتراء کر کے۔ یہ لوگ گمراہ ہوئے اور ہدایت حاصل کرنے والے نہ
بنے۔ "
اسی طرح مشرکین نے بعض قسم کے چوپایوں کو
اپنے مشرکانہ توہمات کے تحت یا اپنے بتوں کی نسبت سے تقدیس کا درجہ دے دیا تھا جن
پر کسی قسم کا تصرف وہ ناجائز خیال کرتے تھے۔ قرآن نے ایک جگہ اس کی تردید کی ہے "مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ
بَحِيرَةٍ وَلا سَائِبَةٍ وَلا وَصِيلَةٍ وَلا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا
يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لا يَعْقِلُونَ " (مائدہ :103)،" اور یہ
بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام خدا نے مشروع نہیں ٹھہرائے ہیں بلکہ یہ کافر
خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا نے مشروع کیے ہیں، اور ان میں سے اکثر
عقل سے کام نہیں لیتے۔"
ایک
اور مقام پر ان کی اس مشرکانہ تحریم و تحلیل پر بدیں الفاظ گرفت فرمائی ہے :وَمِنَ الأنْعَامِ حَمُولَةً
وَفَرْشًا كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ
الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (١٤٢ ) ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِنَ
الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ
الأنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الأنْثَيَيْنِ نَبِّئُونِي
بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (١٤٣ ) وَمِنَ الإبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ
الْبَقَرِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الأنْثَيَيْنِ أَمَّا
اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الأنْثَيَيْنِ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ
وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَذَا فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ
كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ
الظَّالِمِينَ (١٤٤ ) قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى
طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ
خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۔۔۔۔۔ (١٤٥ )" (انعام :141-145)
" اور چوپایوں میں سے
بوجھ اٹھانے والے بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے بھی۔ خدا نے جو تمہیں بخشے ہیں
ان میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا
دشمن ہے۔ آؤ ان چوپایوں کی آٹھوں قسموں کو لو، بھیڑوں میں سے دو اور بکریوں میں سے
دو، پھر پوچھو ان سے کہ خدا نے ان کے نروں کو حرام ٹھہرایا ہے یا ماداؤں کو یا ان
بچوں کو جو ان ماداؤں کے پیٹوں میں ہیں۔ کہو کہ مجھے کسی سند کے ساتھ تباؤ اگر تم
اپنے اس دعوے میں سچے ہو۔ اور اسی طرح دو اونٹوں میں سے اور دو گایوں میں سے لو
اور ان سے پوچھو کہ ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ان کی ماداؤں کو یا ان کو جو ان
ماداؤں کے پیٹوں میں ہیں۔ ان سے پوچھو کیا تم اس وقت موجود تھے جب خدا نے تمہیں ان
باتوں کا حکم دیا ؟ تو ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو خدا پر جھوٹا بہتان
لگائیں تاکہ لوگوں کو کسی علم و سند کے بغیر گمراہی میں مبتلا کریں۔ خدا ظالموں کو
کبھی راہ یاب نہیں کرے گا۔ کہہ دو مجھ پر جو وحی ہوئی ہے اس میں تو میں کسی کھانے
والے پر بجز اس کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا کہ یا تو مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا
سور کا گوشت۔ یہ چیزیں نجس ہیں۔ یا کسی چیز کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو،
خدا کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ۔"
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی
کہ آیت زیر بحث میں شیطان کے نقش قدم کی پیروی سے مراد یہی مشرکانہ توہمات کے تحت
اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرانا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی ملحوظ
رہے کہ شیطان اور اس کی ذریات کو خاص اس مسئلہ سے بڑی دلچپی ہے۔ اس نے لوگوں کو
توحید کے راستے سے ہٹانے کے لیے اس راستے کو بہت کامیاب اور آسان پایا ہے۔ اس وجہ
سے شروع ہی سے اس کو اپنے پروگرام میں شامل کر کے پوری جرات اور صفائی کے ساتھ اس
کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت پر غور فرمائیے:
"وَقَالَ لأتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا
وَلأضِلَّنَّهُمْ وَلأمَنِّيَنَّهُمْ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ
الأنْعَامِ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ
الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا
مُبِينًا" (نساء :119)
"اور
شیطان نے کہا کہ میں تیرے بندوں میں سے اپنا ایک متعین حصہ الگ کر کے رہوں گا۔ میں
ان کو گمراہ کروں گا، ان کو آرزوؤں کے جال میں پھنساؤں گا اور ان کو سمجھاؤں گا تو
وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اور ان کو سمجھاؤں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت
کو تبدیل کریں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا کارساز بنائے گا تو وہ کھلی
ہوئی نامرادی میں مبتلا ہوا۔ "
آیت میں حلال کے ساتھ طیب کی صفت اس بات
کو ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں جو چیزیں جائز ہیں وہ لازما پاکیزہ بھی ہیں۔ گویا ہر
چیز کے ساتھ جواز و عدم جواز کے امتیاز کے لیے جس طرح ایک شرعی اور قانونی معیار
ہے اسی طرح ایک عقلی اور فطری معیار بھی ہے۔ جو چیزیں ظاہری گندگی اور عقلی و
اخلاقی مفاسد سے آلودہ نہیں ہیں وہ سب چیزیں حلال ہیں، ا کے برعکس جن چیزوں کے
اندر کوئی ظاہری یا باطنی گندگی موجوعد ہے وہ ناجائز ٹھہرا دی گئی ہیں۔ شیطان کے لیے
"عدو مبین" کی صفت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ بنی نوع آدم کے ساتھ اس
کے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ وہ روز اول سے آدم اور ان کی ذریت کا
دشمن ہے اور اپنی اس دشمنی کا قیامت تک کے لیے کھلم کھلا اعلان بھی کرچکا ہے۔ اوپر
ہم ایک آیت سورۃ انعام کی نقل کر آئے ہیں جس سے واضح ہے کہ وہ اپنی اس دشمنی کا
خود اللہ تعالیٰ کے سامنے پوری جسارت کے ساتھ اظہار کرچکا ہے۔ اسی مضمون کی ایک
دوسری آیت بھی ملاحظہ ہو
"قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ
خَلَقْتَ طِينًا (٦١ ) قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ
أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لأحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلا قَلِيلا (٦٢
) قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً
مَوْفُورًا (٦٣ ) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ
عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الأمْوَالِ وَالأولادِ
وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا " (بنی اسرائیل :61-64)،
"
ابلیس بولا بھلا میں اس کو سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایا ہے،
اس نے کہا یہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت بخشی ہے ! اگر تونے مجھے قیامت تک کے لیے
مہلت بخشی تو میں اس کی ساری ذریت کو چٹ کر جاؤں گا۔ صرف تھوڑے ہی میرے فتنوں سے
محفوظ رہ سکیں گے۔ خدا نے فرمایا، جا، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے تو جہنم
تمہارا پورا پورا بدلہ ہے۔ اور ان میں سے جن کو اپنے شور و غوغا سے گھبرا سکے ان
کو گھبرا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لے اور ان کے مال و اولاد میں شریک
بن جا اور ان کو وعدوں کے سبز باغ دکھا لے اور شیطان کے یہ وعدے فریب کے سوا اور
کچھ نہیں ہیں۔"
ایک
دوسرے مقام میں شیطان کے الٹی میٹم کے الفاظ ملاحظہ ہوں : قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي
لأقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (١٦) ثُمَّ لآتِيَنَّهُمْ مِنْ
بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ
وَلا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (اعراف :16-17)،
"بولا،
بوجہ اس کے کہ تونے آدم کے سبب سے مجھے گمراہی میں ڈالا، میں تیری سیدھی راہ پر ان
کی گھات میں بیٹھوں گا، پھر میں ان کے آگے سے، ان کے پیچھے سے، ان کے داہنے سے، ان
کے بائیں سے ان کی راہ ماروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہیں پائے
گا۔"
جو دشمن اتنے کھلے ہوئے الفاظ میں اعلان جنگ دے
چکا ہو اس کے ایک کھلے ہوئے دشمن Open enemy ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس
کو "عدؤ مبین" سے تعبیر کیا ہے اور مقصود اس سے بنی آدم کو آگاہ کرنا ہے
کہ ایک چھپے ہوئے دشمن سے دھوکا کھا جانا تو کچھ بعید نہیں ہوتا لیکن ایک کھلے
ہوئے دشمن سے دھوکا کھا جانا، یہاں تک کہ اس کو دوست اور کارساز سمجھ کر اس کے
مشوروں پر کاربند ہونا ایک ایسی حماقت ہے جس سے بڑی حماقت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی
۔"
(ماخوذ
از تدبر قرآن جلد اول : تفسیر سور ہ بقرہ آیت
168)