ایمان کے اجزاء میں فرشتوں پر ایمان کو کیوں داخل کیاگیا ؟

اللہ تعالی نے ایمان کے اجزاء میں فرشتوں پر ایمان کو کیوں داخل کردیا ہے ؟، مولانا امین احسن اصلاحی 
"یہاں ایک بات ممکن ہے بعض ذہنوں میں کچھ کھٹکے، وہ یہ کہ ایمان کے اجزاء میں فرشتوں پر ایمان کو کیوں داخل کردیا ہے۔ جب کہ ان کا تجربہ صرف نبیوں ہی کو ہوا ہے اور ان پر ایمان لانے کا کوئی خاص علمی یا عملی فائدہ ایک عام آدمی پر واضح نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایمان باللہ کا حق آخرت، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے بغیر ادا نہیں ہوتا، انہی چیزوں پر ایمان لانے سے ایمان باللہ ہماری زندگی کی ایک محسوس، موثر اور فعال حقیقت بنتا ہے، اسی طرح ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسل کا ایک غیر منفک جزو ایمان بالملائکہ ہے۔ ملائکہ کو مانے بغیر خدا اور اس کے نبیوں کے درمیان کا واسطہ غیر واضح اور غیر معین رہ جاتا ہے، جس کے غیر واضح رہنے سے نہ صرف سلسلہ علم و ہدایت کی ایک نہایت اہم کڑی گم شدہ رہ جاتی ہے بلکہ ہدایت آسمانی کے باب میں عقل انسانی کو گمراہی کی بہت سی راہیں بھی مل جاتی ہیں۔ یہ بات تو دنیا ہمیشہ سے مانتی آئی ہے کہ خدا ہے اور یہ بات بھی اس نے ہمیشہ محسوس کی ہے کہ جب وہ ہے تو اسے اپنی مرضیات سے اپنے بندوں کو آگاہ بھی کرنا چاہیے لیکن جب وہ کبھی بے نقاب اور رو در رو ہو کر ہمارے سامنے نہیں آتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ذریعہ اور واسطہ کیا ہے جس سے وہ خلق کو اپنے احکام و ہدایات سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے اس نے اپنے خاص خاص بندوں کو منتخب کیا ہے، جن کو انبیاء و رسل کہتے ہیں تو بعینہ یہی سوال ان کے بارے میں بھی اٹھتا ہے کہ ان نبیوں اور رسولوں کو وہ اپنے علم وہدایت سے آگاہ کرنے کا کیا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ کیا رو در رو ہو کر خود ان سے بات کرتا ہے یا کوئی اور ذریعہ اختیار فرماتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں کے درمیان علم کا واسطہ وحی ہے جو وہ اپنے فرشتوں بالخصوص اپنے مقرب فرشتے جبریل کے ذریعہ سے بھیجتا ہے۔ یہ فرشتے خدا کی سب سے زیادہ پاکیزہ اور برتر مخلوق ہیں۔ ان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ یہ براہ راست خدا سے وحی اخذ کرسکتے ہیں۔ یہ ہر وقت اپنے رب کی حمدو تسبیح میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ خدا کے احکام کی بے چون و چرا تعمیل کرتے ہیں اور چونکہ خدا کے حکم و اختیار کے تحت اور اس کی نگرانی میں کرتے ہیں اس وجہ سے نہ تو کوئی اور مخلوق ان کے کسی کام میں رکاوٹ ڈال سکتی اور نہ وہ خود ہی اس میں کبھی بھول چوک یا کسی غلطی کے مرتکب ہو سکتے انہی کے زمرہ کی ایک مقرب ہستی حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں جو خدا کے ہاں سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور مقرب ہیں۔ قرآن میں ان کی صفت ذی قوت، مطاع اور امین بھی آئی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے وہ اس کے لیے تمام صلاحیتوں اور قوتوں سے بھرپور ہیں، دوسری قوتیں یا ارواح خبیثہ ان کو متاثر یا مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ان کے دائرہ کار میں سب بے چون و چرا ان کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں، مجال نہیں ہے کہ کوئی ان کے حکم سے سرتابی کرسکے، وحی الٰہی کی جو امانت نبیوں اور رسولوں تک پہنچانے کے لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے وہ اس کو بے کم و کا ست پہنچاتے ہیں، ممکن نہیں کہ اس میں کسی زیر زبر کا بھی فرق ہوسکے۔ وحی و رسالت کے ساتھ فرشتوں کے اس گہرے تعلق کی وجہ سے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانے کے لیے ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہوا۔ یہ خدا اور اس کے نبیوں اور رسولوں کے درمیان رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اس اعتبار سے یہ ناگزیر ہیں کہ یہی ایک ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہور اور عالم ناسوت دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں، یہ اپنی نورانیت کی وجہ سے خدا کے انوار و تجلیات کے بھی متحمل ہو سکتے ہیں اور اپنی مخلوقیت کے پہلے سے انسانوں سے بھی اتصال پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کے سوا کوئی اور مخلوق خدا تک رسائی کا یہ درجہ اور مقام نہیں رکھتی اس وجہ سے ضروری ہوا کہ نبیوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے جو خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان رسالت کا واسطہ ہیں۔ یہ حقیقت بھی یہاں پیش نطر رہے کہ عقل انسانی عالم لاہوت سے تعلق رکھنے والی ارواح کے تجسس میں ہمیشہ سے رہی ہے اور اس ضرورت کو اس نے اس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ اس تلاش میں اگر اس کو کوئی صحیح چیز نہیں مل سکی ہے تو جو غلط سے غلط چیز بھی اس کے ہاتھ آگئی ہے اسی کا دامن اس نے پکڑ لیا ہے۔ عرب کے کاہن و ساحر جانت، شیاطین اور ہاتف غیبی کو عال لاہوت سے تعلق کا ذریعہ سمجھتے تھے، ہندوستان کے جوتشی اور منجم ستاروں کی گردشوں کے اندر غیب کے اسرار ڈھونڈھتے تھے۔ چین کے مندروں کے پجاری اپنے باپ دادا کی ارواح کے توسط سے عالم غیب سے توسل پیدا کرتے تھے۔ قرآن نے ان تمام غلط وسائل اور واسطوں کی نفی کردی اور ان کے ذریعہ سے حاصل شدہ علم کو رطب و یابس کا مجموعہ ٹھہرایا اور ساتھ ہی یہ حقیقت واضح فرمائی کہ علم الٰہی کا قابل اعتماد ذریعہ صرف ملائکہ ہیں جو انبیاء کے پاس آتے ہیں اور جتنا کچھ خدا ان کو دیتا ہے وہ بے کم و کا ست ان کو پہنچا دیتے ہیں۔۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتاب، اور ایمان بالانبیاء سب ایک دوسرے سے اتصال رکھنے والی کڑیاں ہیں اور جس طرح ایمان بالکتاب اور ایمان بالانبیاء ہماری زندگی کی نہایت محسوس حقیقتیں ہیں اسی طرح ایمان بالملائکہ بھی ہماری زندگی کی ایک نہایت اہم علمی و عملی حقیقت ہے ۔"
(حوالہ : تدبر قرآن ، جلد اول ص 426 از مولانا امین احسن اصلاحی )