وحدت کائنا ت ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین


حکما اور فلاسفہ ہر دور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے جو بعد میں آتے ہیں اپنے متقدمین کے فکرکی غلطیاں نکالنے اور درست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے اختلافات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اگرچہ فلسفیوں اور حکیموںکا پورا گروہ ابھی تک حقیقت کائنات کا صحیح تصور پیش کرنے سے قاصر رہا ہے تاہم جب سے اس گروہ نے حقیقت کائنات پر غور و خوض کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک یہ ایک پراسرار وجدانی شہادت کی بنا پر اس بات کا پختہ یقین ان پر غالب رہا ہے کہ کائنات ایک یکساں کل یا وحدت ہے یعنی وہ فاصلہ اور وقت دونوں کے اعتبار سے ایسے منطقوں یا حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جن میں متضاد قسم کے قوانین قدرت جاری ہوںَ کائنات کے قوانین مسلسل اور مستقل ہیں۔ وہ نہ صرف ہر جگہ پر ایک ہی رہتے ہیں بلکہ ہر زمانہ میں بھی ایک ہی رہتے ہیں۔ وحدت کا عالم یہ وجدانی اعتقاد تمام بڑے بڑے حکیموں‘ فلسفیوں اور سائنس دانوں کے فکر میں خواہ وہ تصوریت پرست ہوں یا مادیت پرست‘ ایک قدر مشترک کا حکم رکھتا ہے۔ اگرچہ کوئی بڑا فلسفی یا سائنس دان اس کی صحت کی دلیل طلب نہیں کرتا بلکہ آغاز ہی سے اسے اپنے مسلمات میں شمار کرتا ہے تاہم اس کی صحت کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ وہ آج تک غلط ثابت نہیں ہو سکا۔ سائنس اور فلسفہ کی تمام ترقیات جو اب تک وجودم میں آئی ہیں ان کی بنیاد یہی حقیقت ہے کہ اور وہ سب مل کر اس کی صحت کی شہادت دیتی ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ اگر جویان حق و صداقت اور طالبان علم و حقیقت اس عقیدہ سے آغاز نہ کرتے اور یہ عقیدہ صحیح نہ ہوتا تو کائنات ایک وحدت ہے اور اس کی تعمیر کے اندر ایک تسلسل موجود ہے جو کہیں نہیں ٹوٹتا تو سائنس اور فلسفہ دونوں ممکن نہ ہوتے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو سائنس دان اور فلسفی دونوں کو اپنے اپنے دائر ہ میں علمی تحقیق کے لیے اکساتا ہے اور اسی کی تصدیق سے وہ اپنی علمی تحقیق کے نتائج پر مطمئن ہوتے اور اس کی ر اہ پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر فلسفی یا سائنس دان کو معلو م ہو جائے کہ جو علمی حقیقت اس نے دریافت کی ہے وہ محض وقتی اورمقامی ہے اور اس کی متبادل یا متوازی علمی حقیقتیں اس کائنات میں اور بہت سی ہیں یا آئندہ ہو سکتی ہیں(مثلاً یہ کہ پانی ایک ہی مقام پر کبھی ایک درجہ حرارت پر ابلتاہے اور کبھی دوسرے پر یا سطح سمندر سے ایک ہی بلندی پر کہیں ایک درجہ حرارت پر ابلتا ہے کہیں دوسرے پر) تو وہ اپنی تحقیق کے اس نتیجہ کو بیکار سمجھ کر چھوڑ دے گا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے ایک انسان کے لیے تو وحدت عالم کا نتیجہ ناگزیر ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے اور اس کا مقصد پوری کائنات میں کارفرما ہے۔ اسی طرح سے ایک تصوریت پرست فلسفی کا حکیمانہ زاویہ نگاہ بھی ا س عقیدہ کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہ بات فطرت انسانی کے نہایت ہی اہم سربستہ رموز کو منکشف کرنے والی ہے جو کارل مارکس اور اس جیسے دوسرے حکمائے یورپین بھی اس عقیدہ سے پہلوتہی نہیں کر سکے۔


وحدت کائنات کے مضمرات


وحدت کائنات کا مسلمہ ہمیں کئی نتائج کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ 


اول: کسی کثرت کے اندر وحدت کا ہونا نظم کے بغیر ممکن نہیں اور نظم ایک مرکزی اصول کے بغیر محال ہے۔ لہٰذا کوئی تصور ایسا ہونا چاہیے کہ جو کائنات کی وحدت کا اصول ہو جو ایک ایسے رشتہ کی طرح ہو جو کائنات کی کثرت کو پرو کر ایک وحدت بناتا ہو۔


دوم: کائنات کی وحدت کے اصول کو کائنات کی آخری اور بنیادی حقیقت ہوناچاہیے اور باقی تمام حقائق عالم کو اس کے مظاہر۔ کیونکہ اگر وہ اس حقیقت کے مظاہر نہ ہوں تو وہ ان میں اتحاد اور نظم پیدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ حقائق اپنی فطرت کے اختلافات کی وجہ سے اس قابل رہتے ہیں کہ ان میں اتحاد اورنظم پیدا کیا جا سکے۔


سوم: کائنات کی وحدت بطور وحدت کے عقلی طور پر سمجھ میں آنی چاہیے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام حقائق عالم کائنات کی بنیادی حقیقت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ عقلی طور پر وابستہ ہوں اور اس باہمی وابستگی کے سبب سے ایک ایسی زنجیر کی صورت اختیار کریں جس کا پہلا اور آخری حلقہ کائنات کی وہی بنیادی حقیقت ہو اور جس کے تمام حلقے ایسے ہوں کہ ہر حلقہ اگلے حلقے کی طرف راہ نمائی کر رہا ہو۔ حکما حقائق عالم کی ایسی ہی رنجیر کو نظام حکمت (Philosophical System)کا نام دیتے ہیں۔


چہارم: اگر ہم حقائق عالم میں سے کسی حقیقت کی علت بیان کیں تو وہ علت اس حقیقت کی تشریح تو کر دیتی ہے لیکن خود کئی سوالات پیدا کر دیتی ہے اور پھر ان سوالات کا جواب اور سوالات پیدا کرتا ہے اور علی ہذا القیاس یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اگر کائنات کو ایک وحدت مانا جائے تو ضروری ہو گا کہ ان پے در پے پیدا ہونے والے سوالات کا آخری جواب اور ہر حقیقت کی آخری تشریح کائنات کی وہی حقیقت ہو جو حقیقت الحقائق ہے۔


پنجم: اصول وحدت کائنات یا حقیقت کائنات کے ہزاروں تصورات ممکن ہیں لیکن ان میں صحیح تصور صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو کائنات کی وحدت ختم ہو جاتی ہے۔ اور ضروری ہے کہ کائنات کے تمام صحیح اور سچے حقائق صرف اسی ایک تصور کے ساتھ علمی اور عقلی مطابقت رکھتے ہوں اور کسی دوسرے غلط تصور کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں اور جب کائنات کا صحیح نظام حکمت وجود میں آئے تو اس کا مرکزی اور بنیادی نقطہ یہی تصور حقیقت ہو۔ اگر کوئی ایک سچی حقیقت بھی ایسی ہو جو کسی نظام حکمت کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ نظام حکمت کسی غلط حقیقت پر مبنی ہے اور اگر کوئی علمی حقیقت جسے علمی حقیقت سمجھا جا رہا ہے کسی صحیح نظام حکمت کے ساتھ جو صحیح تصور حقیقت پر مبنی نہ ہو مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ علمی حقیقت علم کے معروف اور مسلم معیاروں پر پوری نہ اتر سکے گی۔ غلط تصورات صحیح نظام حکمت کے اندر نہیں سما سکتے اور صحیح تصورات غلط نظام حکمت کے اندر داخل ہو کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ لیکن صحیح نظام حکمت ہر دور میں تمام صحیح تصورات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اوریہی اس کی صحت کا قابل اعتماد معیار ہوتا ہے۔ 


ششم: وحدت کائنات کا مطلب یہ ہے کہ حقائق عالم ایک عقلی ترتیب اور تنظیم اختیار کر سکتے ہیں حقائق عالم کی عقلی ترتیب اورتنظیم ہمارے معلوم اور نامعلوم حقائق کے درمیان ایک رابطہ یا کوشش پید اکرتی ہے۔ اور ہمیں ا س قابل بناتی ہے کہ ہم معلوم حقائق کی مدد سے نامعلوم حقائق کو پیہم دریافت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ عالم کے سلسلہ کی ساری کڑیاں اپنی اصلی عقلی ترتیب کے ساتھ ہمارے احاطہ علم میں آ جائیں۔ سائنس دان اور فلسفی دونوں اس کام کو انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کوششوں سے معلوم حقائق کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جوں جوں ان کی تعداد زیادہ ہوتی چلی جائے گی صحیح اور سچے تصور حقیقت کے ساتھ ان کے مجموعے کی علمی اور عقلی مناسبت بڑھتی چلی جائے گی اورہر غلط تصور حقیقت کے ساتھ کم ہوتی جائے گی اور ہم اپنے وجدان کی شہادت کی بنا پر آسانی کے ساتھ بتا سکیں گے کہ حقیقت کائنات کا کون سا تصور ایسا ہے جو ان حقائق کے ساتھ مناسبت رکھتاہے اور کون سا ایسا ہے جو مناسبت نہیں رکھتا اور اس طرح سے ہم تصور حقیقت اور اس پر قائم ہونے والے صحیح نظام حکمت کے قریب آتے جائیں گے۔


ہفتم: صحیح نظام حکمت جب وجودمیں آئے گا تو ابتدا میں لازماً مختصر ہو گا اور پھر جوں جوں معلوم حقائق کی تعدادبڑھتی جائے گی اور وہ اس کے اندر سماتے جائیں گے تو وہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ حقائق علمی کی کوئی حد نہیں نئے دریافت ہونے والے علمی حقائق کی تائید اور توثیق کی وجہ سے یہ نظام حکمت روز بروز مفصل اور منظم اور معقول ہوتا جائے گا اور اسی نسبت سے غلط نظام ہائے حکمت دن بدن اپنی معقولیت کھوتے جائیں گے حتیٰ کہ دنیا بھر میں یہ تسلیم کر لیا جائے گا کہ یہی نظام حکمت ہے جو ہر لحاظ سے درست اور تسلی بخش ہے اس نظام حکمت کے وجود میں آنے کے بعد ہر علمی ترقی خواہ وہ کسی شعبہ تعلیم سے تعلق رکھتی ہو یا تو اس کی تائید کرے گی یا پھر وہ کوئی علمی ترقی ثابت نہ ہو گی۔


وحدت کائنات کے اعتقاد کا سرچشمہ


وحدت کائنات پر انسان کے غیر شعوری وجدانی اعتقاد کا سرچشمہ دراصل اس کی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ کائنات کا کوئی ایسا خالق مانے جو ایک ہی ہو اور انسان کی فطرت کا یہ تقاضا بے معنی نہیں۔ فطرتی تقاضوں کو پور ی طرح سے مطمئن کرنے کا سامان قدرت کے اندر پہلے ہی موجود ہوتا ہے چونکہ کائنات سائنس دانوں اور فلسفیوں کی آج تک کی تحقیق سے ایک وحدت ثابت ہوئی ہے لہٰذا اس کے اندر کوئی اصول کارفرما ہے جو اس کو ایک وحدت بناتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اصول خدا یہ کہ جو کائنات کا خالق ہے اور جو ایک ہی ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ قرآن حکیم نے کائنات کی وحدت کی طرف پرزور الفاظ میں توجہ دلائی ہے اور اس کو اس بات کے ثبوت کے طورپر پیش کیا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے۔


"ما تری فی خلق الرحمن من تفوت، فارجع البصر ھل تری من فطور ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خا ساً وھو حسیر"


آ پ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی ناہمواری نہ دیکھیں گے۔ ذرا نظر دوڑائیے(اور کائنات کا مشاہدہ کیجیے) کیا آ پ کو خدا کی اس تخلیق میں کوئی بے ربطی نظر آتی ہے۔ پھر دوبارہ نظر دوڑائیے اور دیکھیے، نگاہیں اس بات سے ناکام ہو کر آپ کی طرف لوٹیں گی کہ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی ناہمواری پا سکیں۔


"قل ارایتم ماتدعون من دون اللہ ارونی ماذا خلقوا من الارض ام لھم شرک فی السموت"


اے پیغمبر (ان لوگوں سے کہیے ) کہ کیاتمہیں معلوم ہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر کس سے حاجتیں طلب کرتے ہو مجھے بتائو تو سہی انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ہی کوئی ان کا حصہ ہے؟


یعنی اگر کائنات کی تخلیق میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہوتا تو زمین و آسمان میں کہیں تو اس کی اپنی تخلیق کا نشان ملتا جہاں جدا قسم کے قوانین قدرت نافذ ہوتے۔ ظاہر ہے کہ منکرین قرآن حکیم کے اس سوال کے جواب میں اسی کائنات کا ایک حصہ پیش کر کے معقولیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جو خدا کے اس شریک نے پیدا کیا ہے جسے ہم مانتے ہیں کیونکہ جب کائنات کے اس حصہ میں بھی قوانین قدرت وہی ہوں جو باقی کائنات میں ہیں تو کس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا خالق وہی نہیں جو باقی کائنات کا ہے۔


قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ وحدت کائنات کی حقیقت کو وحدت خالق کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے: "قل لو کان فیھما الہۃ الا اللہ لفسدنا"


اے پیغمبر (ان لوگوں سے) کہیے کہ اگر زمین میں خدا کے سوائے اور بھی خدا ہوتے تو دونوں (یعنی زمین و آسمان) میں بدنظمی رونما ہوتی۔


یعنی چونکہ زمین او ر آسما ن میں کہیں بھی دو عملی یا بدنظمی یاتضاد موجود نہیں اور تم اس بدنظمی کا تصور بھی نہیں کر سکتے بلکہ وحدت کائنات اور تسلسل قوانین کے تحت خو خود بخود اپنے مسلمات میں شمار کرتے ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے اور وحدت کائنات خالق کی دلیل ہے اور چونکہ قرآن حکیم چاہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو قوانین قدرت کے مطابق بنائے لہٰذا نسان کو یقین دلانے کے لیے کہ یہ قوانین قابل اعتماد ہیںَ قرآن حکیم بار بار ان کے تسلسل اور استقلال کی طرف توجہ دلاتاہے۔


"لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا"


(اے پیغمبر) آپ خدا کے قوانین میں کہیں اور کبھی کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔


"لن تجف لسنتہ اللہ تحویلا"


آپ خدا کے قوانین میں کہیں اور کبھی کوئی تغیرنہ پائیں گے۔


دوسرے فلسفیوں کی طرح اقبال بھی کائنات کو اس کی رنگار رنگی اور بوقلمونی کے باوجود ایک وحدت قرار دیتا ہے۔


زمانہ ایک حیات کائنات بھی ایک


کمال بے بصری قصہ قدیم و جدید


یہی وجہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ دوسرے فلسفیوں کی طرح ایک نظام حکمت ہے لیکن اقبال میں اور دوسرے فلسفیوں میں یہ فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ کائنات کی وحدت کا اصول یا حقیقت کائنات جو کائنات کی کثرت کو وحدت میں تبدیل کرتی ہے حق تعالیٰ کا وجود ہے۔ ان صفا ت کے ساتھ جو خاتم الانبیاؐ کی تعلیم میں اس کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور دوسرے فلسفیوں میں سے ہر ایک حقیقت کائنات کا جو تصور قائم کیے ہوئے ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ خدا کی فطرت وہ اصول ہے جو پوری کائنات کو متحد کرتاہے۔ لہٰذا خدا کے عاشق کے دل میں پوری کائنات سما جاتی ہے۔ انسانی انا ایک ہے لیکن اس کے خارجی اثرات بہت سے ہوتے ہیں وہ مخفی ہے لیکن اس کے افعال آشکار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح سے ذات حق ایک ہے لیکن کائنات کی کثرت میں اس کا ظہور ہوا ہے پھر وہ مخفی ہے لیکن کائنات کی تخلیق نے اسے آشکار بنا دیا ہے گویا انسانی انا کی فطرت خدا کی فطرت کی طرف راہ نمائی کرنے والی ہے۔


ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی


گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پنہائی


اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن


یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی





(اقبال)


(حوالہ : حکمت اقبال ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین  ، اقبال اکادمی ، پا کستان )