تکثیری معاشرے کے لیے قرآنی ہدایات

تکثیری معاشرے کے لیے قرآنی ہدایات 
مولانا محمد رضی الاسلام ندوی 
سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
معاون مدیر سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کے درمیان گوناگوں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ رنگ، نسل،زبان، علاقہ،     تہذیب و تمدن،معاشرت، عقیدہ، مذہب، کسی معاملے میں وہ یکساں نہیں ہیں، بلکہ ان سب پہلؤوں سے ان میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ ان اختلافات کو نظر انداز کرنے، انھیں گوارا کرنے اور ان کے باوجود مل جل کر رہنے اور    پُر امن طریقے سے زندگی گزارنے کو موجودہ دور کی ایک اہم قدر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ایک اصطلا ح PLURALISM کی وضع کی گئی ہے۔اردو میں اس کا ترجمہ ’کثرتیت‘ یا ’تکثیریت‘ کیا جاتا ہے۔
ریفرنس آکسفورڈ ڈکشنری میں PLURALISM کا یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے:
The existence or toleration in society of a number of groups that belong to different races or have different political or religious beliefs.
’’ تکثیریت سے مراد ہے کسی سماج میں ایسے متعدد گروہوں کی موجودگی اور ان کے درمیان رواداری جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہوں یا مختلف سیاسی تصورات یا مذہبی عقائد کے حامل ہوں۔‘‘
برٹانیکا ریفرنس انسائیکلوپیڈیا میں اس کی یہ تشریح کی گئی ہے:
Pluralism assumes that diversity is beneficial to society and that the disparate functional or cultural groups of which society is composed — including religious, trade unions, professional organisations and ethnic minorities — should be autonomous."
’’  تکثیریت کا مفروضہ یہ ہے کہ تنوع سماج کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ سماج کے مختلف طبقات یا تہذیبی اکائیوں کو۔۔ جن میںمذہبی گروہ، ٹریڈ یونینس، پیشہ ورانہ انجمنیں اور نسلی اقلیتیں شامل ہیں ۔۔ حقِ خود اختیاری حاصل ہو نا چاہیے۔‘‘
قرآن کریم پر اعتراضات کی حقیقت
قرآن کریم پرجو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ علیٰحدگی پسند ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو انفرادیت پسندی سکھاتا ہے اور انہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے الگ تھلگ رکھنا چاہتا ہے۔ حسنِ سلوک، ہمدردی، مساوات، ربطِ باہم، تعاون و امداد اور خوش گوار انسانی تعلقات کے سلسلے میں اس نے جو تعلیمات و ہدایات دی ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ رہے دوسرے مذاہب کے ماننے والے تو ان کے لیے اس کے پاس نفرت و حقارت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہ رکھیں۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی ہمدردی اور خیر خواہی نہ کریں، بلکہ انہیں تنگ کرنے،     نیچا دکھانے اور تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تکثیری معاشرہ کے لیے اسلام موزوں نہیں ہے۔ آج جب کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن گئی ہے، مختلف قوموں، گروہوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوںکے درمیان تعامل ناگزیر ہے، ایسے میںقرآن کی معاشرتی تعلیمات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
یہی نہیں ،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ قرآن کی بعض آیتوں میںمسلمانوں کو دوسرے دھرموں کے پیروکاروں سے لڑنے جھگڑنے اور جنگ و جدال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔چنانچہ جب تک ان آیتوں کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا، دیش کے دنگوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ انہی الزامات کے تحت کچھ عرصہ قبل کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فاضل ججوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے خارج کردیا۔
قرآنی تعلیمات کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ قرآن نے اصولی طور پر مسلم اور کافر کے درمیان فرق کیا ہے، لیکن اس فرق کا کچھ بھی اثر انسانی حقوق اور معاشرتی تعلقات پر نہیں پڑتا۔ اس نے انسان کے جو بنیادی حقوق متعین کیے ہیں، ان سے ہر شخص بہرہ ور ہوگا، خواہ وہ مسلم ہو یا کافر۔ مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیے اسلام نے جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں، ان کا اطلاق معاشرہ کے تمام افراد پر ہوگا، خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر۔ ایک ایسا معاشرہ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہوں، اس کے افراد کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں قرآن نے واضح ہدایات اور احکام دیے ہیں۔ ان کی روشنی میں یہ تعلقات بغض و عداوت، نفرت و حقارت، کشیدگی اور بدگمانی پر مبنی نہیں ہوں گے، بلکہ ان کی بنیاد حسن سلوک، ہمدردی، تعاونِ باہمی، نصح و خیر و خواہی اور حسن ظن پر قائم ہوگی۔
والدین اور رشتہ داروں سے تعلقات
معاشرہ میں انسان کا سب سے قریبی تعلق والدین اور رشتہ داروں سے ہوتا ہے۔قرآن ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اور اس معاملے میں مسلم اور کافر کی کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اگر کسی شخص نے اسلام کو دین حق سمجھ کر قبول کیا ہو، لیکن اس کے والدین اس سعادت سے محروم ہوں، تو بھی مذاہب کا یہ اختلاف اسے ان کی خدمت کرنے، ان کی خبر رکھنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے باز نہیں رکھتا۔ یہی نہیں، بلکہ اگر اس کے والدین اس کے اسلام قبول کرنے کے نتیجے میں اس سے ناراض ہوجائیں، اس پر طرح طرح سے دباؤ ڈالیں کہ وہ اسلام سے پھر جائے اور اسے اذیتیں دیں، تو ایسی صورت میں یہ عمومی ہدایت ہے کہ وہ دین حق سے دست بردار تونہ ہو، البتہ ردعمل کے طور پر طیش میں آکر اپنے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک ترک نہ کردے، بلکہ اس معاملے میں ادنیٰ سی بھی کوتاہی نہ کرے۔ چناں چہ قرآن کا واضح حکم ہے:
وَ اِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا    (لقمان:۱۵)
’’اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان ۔ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ۔‘‘
یہ آیت مکی دور کے اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب آں حضرتﷺکی دعوت پر قریش کے نوجوان لبیک کہہ رہے تھے اور حلقہ بہ گوش اسلام ہو رہے تھے۔ دوسری طرف ان کے والدین، رشتہ دار اور خاندان کے لوگ انہیں اس سے روکنے اور اسلام سے پھیر کر آبائی مذہب کی طرف واپس لانے کے لیے ہر جتن کر رہے تھے اور اس میں ناکامی کی صورت میں انہیں جسمانی اذیتیں دے رہے تھے۔ ممکن تھا کہ ان حالات میں وہ نوجوان بھی ردعمل کی کیفیت کا شکار ہوجاتے اور والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ان میں انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا،یا کم از کم ان سے وہ بے پروا ہوجاتے، لیکن انہیں تاکید کی گئی کہ وہ ناحق میں تو ان کی بات نہ مانیں، لیکن دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ بھلے طریقے سے پیش آئیں اور اچھا سلوک کرتے رہیں۔
والدین کے بعد رشتہ داروں کا درجہ ہے۔ وہ بھی اسی طرح حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ قرآن تاکید کرتا ہے کہ رشتہ دار خواہ ہم مذہب ہوں یا دوسرے مذہب کے ماننے والے ، ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کی خبر گیری میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اس معاملے میں قرآن کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ ایک مثال سے بہ خوبی کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی شریعت میں کسی شخص کے مستحقِ میراث ہونے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی دوسرے ذریعے سے بھی اسے کسی طرح کا مالی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔قرآن نے اجازت دی ہے کہ غیر مسلم رشتہ داروں کو وصیت یا تحفے تحائف کے ذریعے اپنے مال کا کچھ حصہ دیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأُوْلُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلیٰ بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللَّہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُم مَّعْرُوفاً     (الاحزاب:۶)
’’کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس لیے اپنے اولیاء (دیگر متعلقین) کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کرسکتے ہو۔‘‘
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق عام لوگوں پر مقدم ہیں۔ سورۂ احزاب ۵ھ میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے، ہجرتِ مدینہ کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ   کرا دیا تھا۔ اس تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ آیت بالا کے نزول کے بعد یہ طریقہ موقوف ہوگیا اور وراثت کی بنیاد رشتہ داری کو قرار دیا گیا۔ آیت کے آخری ٹکڑے إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُم مَّعْرُوفاً  کا مطلب یہ ہے کہ (میراث کے مستحق) رشتہ داروں کے علاوہ اپنے دوسرے متعلقین کی مالی مدد کرنا چاہو تو دیگر کسی ذریعہ (مثلاً تحفے یا وصیت وغیرہ) سے ایسا کرسکتے ہو۔
محمد بن الحنفیۃؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کے ذریعہ غیر مسلم کے لیے وصیت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یعنی اپنے کافر رشتہ دار کے ساتھ ایسا کیا جاسکتا ہے۔ مشرک رشتہ دار سے اگرچہ دین کا تعلق نہیں ہے، لیکن نسبی اعتبار سے وہ رشتہ دار ہے، اس لیے اس کے حق میں وصیت کی جاسکتی ہے۔‘‘(۱)
قتادہؒ، حسنؒ اور عطاؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اجازت دی گئی ہے کہ مسلمان اپنے کافر رشتہ دار کو اپنی زندگی میں جو چاہے، دے سکتا ہے اور مرتے وقت اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے۔‘‘(۲)
پڑوسیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات
رشتہ داروں کے بعد انسان کا سب سے قریبی تعلق اپنے پڑوسیوں سے ہوتا ہے۔ ان کا ہر وقت ساتھ رہتا ہے۔ پڑوسی اچھے ہوں تو انسان اپنے اہل و عیال، گھر اور مال سے بے فکر ہوکر کاروبارِ زندگی میں مصروف ہوتا ہے۔ ان کی طرف سے اطمینان نہ ہو تو اسے کبھی ذہنی یکسوئی نہیں مل سکتی۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان ایک اچھا پڑوسی بنے۔ اس کی ذات سے اس کے پڑوسیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، وہ ان کے دکھ درد میں کام آئے اور ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات رکھے۔ قرآن کریم میں ہے:
وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَبِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمَی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ         (النسائ:۳۶)
’’ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہم سایہ سے، پہلو کے ساتھی سے … احسان کا معاملہ رکھو۔‘‘
اس آیت میں تین طرح کے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیا گیا ہے: ایک الْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی (رشتہ دار پڑوسی) دوسرا الْجَارِ الْجُنُب (اجنبی پڑوسی) اور تیسرا الصَّاحِبِ بِالجَنبِ (پہلو کا ساتھی، جس سے تھوڑی دیر کا ساتھ ہوجائے)۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ الْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی سے مراد مسلم پڑوسی اورالْجَارِ الْجُنُب سے مراد  غیر مسلم پڑوسی ہے۔ (۳)
احادیث میں بھی پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیحسن الی جارہ(۴)
’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ایک موقع پر صحابہ کرام کی ایک مجلس میں تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیںہے۔‘‘ صحابہ نے دریافت کیا: ’’کون اے اللہ کے رسول؟ فرمایا:
الذی لا یأمن جارہ بوائقہ (۵)
’’وہ شخص جس کا پڑوسی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
مذکورہ بالا آیت اور احادیث عام ہیں۔ ان میں مسلمان ہونے کی قید نہیں ہے۔ غیر مسلم پڑوسی بھی ان میں شامل ہیں۔ اسی لیے صحابۂ کرام اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے تھے۔ حضرت مجاہدؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے پاس تھا۔ ان کے ملازم نے ایک بکری ذبح کی تو انہوں نے فرمایا: ’’اس کا گوشت تقسیم کرو تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کے یہاں بھیجو۔‘‘ ایک شخص نے کہا: ’’کیا آپ اس یہودی کے یہاں بھیجیں گے؟فرمایا: ’’میں نے نبیﷺ کو پڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ آپ اسے وراثت میں حق دار قرار دے دیں گے۔‘‘(۶)
حسن معاشرت
جب کچھ لوگ ایک جگہ رہتے بستے ہیں تو ان کے درمیان سماجی تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ باہم خوش گوار تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ تمام افراد ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ اپنے پڑوسیوں، ملاقاتیوں اور شرکائِ کار کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آئیں۔ ان کی خوشیوں میں شریک ہوں، ان کے غم کو اپنا غم سمجھیں اور ان کی ہمدردی، مواسات، دل جوئی اور غم خواری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ اسلام انسانی جذبات کا پورا لحاظ کرتا ہے۔ وہ غیر مسلموں سے انسانی روابط میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں سمجھتا، بلکہ ان کی تاکید کرتا ہے:
لاَ یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ     (الممتحنۃ:۸)
’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
تکثیری معاشرہ میں رہنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت اہم آیت ہے۔ اس میں دو جملے آئے ہیں: أَنْ تَبَرُّوْہُمْ اورتُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ۔ برّ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا (۷)  اس میں زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے (البرّ: التوسّع فی الاحسان الیہ) (۸)  تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ کے معنیٰ بعض مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو، جب کہ بعض دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے طور پر اپنے مال کا کچھ حصہ انھیں دو (أن تعطوہم قسطاً من أموالکم علی وجہ الصلۃ)(۹)
بعض مفسرین اس آیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم یعنی      غیر منسوخ ہے (وقال أکثر أہل التأویل: ہی محکمۃ)(۱۰)
امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
ہذہ الآیۃ رخصۃ من اللہ تعالیٰ فی صلۃ الذین لم یعادوا المؤمنین ولم یقاتلوہم۔(۱۱)
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور ان سے جنگ نہیں کی۔‘‘
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
قال أہل التأویل: ہذہ الآیۃ تدلّ علی جواز البرّ بین المشرکین و المسلمین، وان کانت الموالاۃ منقطعۃ۔ (۱۲)
’’مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان نیکی اور حسن سلوک کا معاملہ جائز ہے، اگرچہ ان کے درمیان موالات (یعنی قریبی تعلق رکھنا) ممنوع ہے۔‘‘
غریبوں کا مالی تعاون
سماج میں کچھ لوگ غریب، محتاج، بے کس اور لاچار ہوتے ہیں۔ صاحب حیثیت اور مال دار لوگوں کا فرض ہے کہ ان کی خبر گیری کریں، وقتِ ضرورت ان کے کام آئیں اور ان کا سہارا بنیں۔ قرآن اس معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق روا نہیں رکھتا۔  وہ غیر مسلموں پر بھی انفاق کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ساتھ ہی وہ یہ بھی صراحت سے کہتا ہے کہ غیر مسلموں پر محض اللہ کی خوش نودی کے لیے خرچ کیا جائے، ان سے کسی دنیوی منفعت کی امید نہ رکھی جائے اور انہیں مال کے ذریعے اسلام قبول کرنے کا لالچ نہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَیْْسَ عَلَیْْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَن یَّشَآء ُ وَمَا تُنفِقُوْا مِنْ خَیْْرٍ فَلأِنْفُسِکُمْ وَمَا
تُنْفِقُوْنَ اِلاَّ ابْتِغَآئَ  وَجْہِ اللّٰہِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْْکُمْ وَ اَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ¡
(البقرۃ:۲۷۲)
’’اے نبی! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے، بخشتا ہے۔ اور راہِ خیر میں جو مال تم لوگ خرچ کرتے ہو، وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے ۔آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم راہِ خیر میں خرچ کروگے اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔‘‘
یہ آیت انفاق کے سیاق میں وارد ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کی آیات میں اہلِ ایمان سے خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے، اس سے کھلے چھپے ہر طرح سے، اس کے ضرورت مند بندوں پر خرچ کرو اور شیطان کے پیداکردہ فقر و فاقہ کے اندیشوں میں مت مبتلا ہو اور اللہ کی راہ میں اپنا اچھا مال خرچ کرو، اس کے لیے خراب مال چھانٹ کر مت رکھو۔ اسی سیاق میںکہا جا رہا ہے کہ جو کچھ خرچ کرو، اس میں اللہ کی خوش نودی اپنے پیش نظر رکھو۔ اس کا فائدہ تمہاری ذات کو پہنچے گا اور تمہیں بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔ جولوگ تمہاری مدد کے مستحق ہیں، ان کا ہدایت یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ مت سوچو کہ ان لوگوں پر اس وقت خرچ کریں گے، جب وہ اسلام لے آئیں گے۔ انہیں ہدایت پر لانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ جس کو چاہے گا، ہدایت سے نوازے گا۔ تمہارا کام یہ ہے کہ وہ خواہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں، اگر وہ ضرورت مند ہیں اور اللہ نے تمہیں نواز رکھا ہے تو ان کی ضرورت پوری کرو۔ روایات میں آتا ہے کہ ابتدا میں صحابۂ کرام اپنے ان رشتہ داروں پر، جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، خرچ نہیں کرتے تھے، بعض صحابہ نے اس سلسلے میں آں حضرتﷺ سے دریافت کیا کہ جو لوگ ہمارے ہم مذہب نہیں ہیں، کیا ان کا کچھ مالی تعاون کیا جاسکتا ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(۱۳)

اعزاز و اکرام
خوش گوار معاشرت کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے تمام افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، ان کے ساتھ اعزاز و اکرام سے پیش آیا جائے اور انہیں اچھے انداز سے مخاطب کیا جائے ۔ اس معاملے میں بھی قرآن نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے:
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَا اَوْ رُدُّوْھَا      (النسائ:۸۶)
’’اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’سلام کا جواب دو، خواہ سلام کرنے والا یہودی یا عیسائی یا مجوسی ہو۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔(۱۴)
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو سلام کیا جاسکتا ہے، ان کے سلام کا جواب دیا جاسکتا ہے، اوران سے مصافحہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آں حضرتﷺ کا ایک ایسی مجلس سے گزر ہوا، جہاں مسلمانوں کے علاوہ یہود اور مشرکین بھی تھے۔ آپؐ وہاں پہنچے تو آپؐ نے سلام کیا۔(۱۵)
صحابۂ کرام کا بھی معمول تھا کہ جس سے بھی ان کی ملاقات ہوتی، اسے سلام کرتے تھے اور اس معاملے میں کسی سے کوئی تفریق روانہ رکھتے تھے۔ وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تاکید کرتے تھے۔حضرت ابو امامہؓ کی راستہ چلتے ہوئے کسی سے ملاقات ہوتی تو اسے سلام کرتے، خواہ ملنے والا مسلمان ہو یا کوئی اور ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ ان سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیاکہ ہمیں سلام عام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(۱۶)حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بھی روایات میں آتا ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرتے تھے، خواہ ملنے والا مسلمان ہو یا غیر مسلم۔(۱۷)
معاملات
معاشرہ کے افراد کو قدم قدم پر ایک دوسرے کے تعاون، مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں باہم مختلف معاملات کرنے پڑتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتو ان کے لیے زندگی گزارنا دشوار ہوجائے۔ جس سماج میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں، وہ ایک دوسرے کے کام آسکتے ہیں اور ایک دوسرے سے معاملات کرسکتے ہیں۔ قرآن اس معاملے میںمذاہب کے اختلاف کو رکاوٹ نہیں بناتا۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اس کے ماننے والے غیر مسلموں کے اشتراک سے کاروبار کرسکتے ہیں، ان سے رہن، مزارعت وغیرہ کے معاملات کرسکتے ہیں، بغیر کسی کراہت کے ان کی مصنوعات استعمال کرسکتے ہیں اور انہیں اپنی چیزیں فروخت کرسکتے ہیں، ان کے یہاں اجرت پر کام کرسکتے ہیں اور انہیں اپنے یہاں کام پر لگا سکتے ہیں۔ غرض ہر طرح کے تجارتی وکاروباری معاملات غیر مسلموں کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔ مذاہب کے اختلاف سے اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس سلسلے میں قرآن کی اصولی تعلیم یہ ہے:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ     ( المائدۃ:۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! معاہدوں کی پابندی کرو‘‘
احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابۂ کرام غیر مسلموں سے ہر طرح کے معاملات کرتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری دنوں میں ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن رکھ کر اس سے اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیے کچھ غلہ لیا تھا۔(۱۸)حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مشرک نبیﷺ کے پاس کچھ بکریاں لے کر آیا۔آپؐ نے اس سے ایک بکری خریدی۔(۱۹)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فتح خیبر کے بعد وہاں کی زمین یہودکے پاس رہنے دی، اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان میں کاشت کریں گے اور انہیں پیداوار کا نصف ملے گا۔(۲۰)سفرِ ہجرت کے موقع پر ایکغیر مسلم کی خدمات حاصل کی گئیں اور اللہ کے رسول ﷺ اورحضرت ابو بکرؓ نے اس کی رہ نمائی میں مدینہ کا سفر کیا تھا۔(۲۱)حضرت خبابؓ اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میں لوہار تھا۔ میں نے مکہ میں عاص بن وائل (مشہور مشرک) کا کچھ کام کیا تھا۔(۲۲)
امام نوویؒ ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل ذمہ اور دیگر کفار سے معاملات کیے جاسکتے ہیں بشرطے کہ ان معاملات میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو۔‘‘(۲۳)
رواداری
تکثیریت کا بنیادی عنصر رواداری ہے۔ یعنی اپنے عقیدہ و مذہب کوحق سمجھتے ہوئے اس سے اختلاف رکھنے والوں کی یہ آزادی تسلیم کرنا کہ وہ جو عقیدہ و مذہب چاہیں اختیار کر سکیں۔قرآ اس کا علم بردار ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ    ( البقرۃ:۲۵۶)
’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ بے شک ہدایت گم راہی سے ممتاز ہو گئی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی رضا تو اس میں ہے کہ تمام انسان سیدھے راستے پر چلیں اور اس کی معصیت سے بچیں،لیکن اس کی مشیت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی سے اپنے لیے عقیدہ و مذہب کا انتخاب کریں۔چنانچہ اس نے بہ جبر تمام انسانوں کو مسلمان نہیں بنایا ہے اور اپنے پیغمبر کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں جبر سے کام نہ لیں۔قرآن میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے:
وَلَوْ شَاء  رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْن        ( یونس:۹۹)
’’ اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی ( کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟‘‘
قرآن میں یہ بات بہت زور دے کر کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق و اضح کردیا ہے، ساتھ ہی انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی بخشی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کرکے دائرۂ اسلام میں آجائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر قائم رہیں:
إِنَّا ہَدَیْْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً ۔ (الدھر: ۳)
’’ ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَآئَ  فَلْیُؤْمِنْ وَمَن شَآئَ  فَلْیَکْفُرْ۔ (الکہف: ۲۹)
’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے ۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔‘‘
دوسرے مذاہب کی محترم شخصیتوں کا احترام
قرآن اہلِ مذاہب سے مکالمہ کا قائل ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ حق واضح کیا جائے اور باطل کی تردید کی جائے  اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی مذہبی تعلیمات میں جو غلط باتیں شامل کر لی ہیں انھیں چھانٹ کر الگ کر دیا جائے،  لیکن وہ تاکید کرتا ہے کہ مذاکرہ و مباحثہ میں سنجیدگی، متانت اور شائستگی ملحوظ رکھی جائے اور ایسا لہجہ نہ اختیار کیا جائے کہ ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔اس سیاق میں اس نے ان شخصیتوں کے بارے میں، جن سے وہ عقیدت رکھتے ہیں، نازیبا کلمات منہ سے نکالنے سے منع کیا ہے۔ اس کی سخت تاکید ہے:
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْْرِ عِلْمٍ     ( الانعام:۱۰۸)
’’ اور (اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو،کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ سبحانہ نے اس آیت میں بتوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر انھیں برا بھلا کہا جائے گا تو ان کی پوجا کرنے والوں کی نفرت اور کفر میں اضافہ ہوگا۔ علماء کہتے ہیں کہ اس آیت کا حکم اس امت کے لیے ہرزمانے میں باقی ہے۔‘‘(۲۴)
امام رازیؒ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کفار کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس کے جواب میں وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں نا زیبا کلمات کہنے لگیں۔ اس سے اس پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اگر تمھارا مخالف جہل اور نادانی کا مظاہرہ کرے تو تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم بھی اسی طرح کی باتیں کرنے لگو۔ اس لیے کہ اس طرح باہم جھگڑے اور گالم گلوج کی نوبت آسکتی ہے اور یہ عقل مندوں کا شیوہ نہیں ہے۔‘‘(۲۵)
غیر مسلموں سے’ دوستی‘ کی ممانعت کا صحیح مفہوم
قرآن پرایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ’دوستانہ تعلقات ‘رکھنے سے منع کیا ہے اور انھیں’ دشمن‘ کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں بغض و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ ان سے کسی طرح کا تعلق نہیں رکھا جاتا، بلکہ انھیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ  مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
(النسائ: ۱۴۴)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ‘‘
ایسی آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیائ‘ نہ بنائیں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے۔ اس کا مادہ ’و ل ی‘ اور مصدر ’ولائ‘ ہے۔ ولاء کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ان سے مغایر ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ قربت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ خواہ یہ قربت جگہ کی ہو، یا تعلق کی ، یا مذہب کی، یا دوستی، مدد اور عقیدہ کی۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کاتعلق ہو اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولیٰ‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔(۲۶) ایسی آیتوں میں لفظ ’اولیائ‘ انتہائی قربت کے معنیٰ میں آیا ہے۔علامہ زمخشریؒ فرماتے ہیں:
(لاتتّخذوہم أولیائ) تنصرونہم وتستنصرونہم وتؤاخونہم و تصافونہم وتعاشرونہم معاشرۃ المؤمنین۔ (۲۷)
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد’کافروں کو اولیاء نہ بناؤ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان سے تمھارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں۔‘‘
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جن میں مسلمانوں کو ’کافروں‘ سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کررکھی تھی اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ بھی کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ایک تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں سے ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انھیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔( ملاحظہ کیجیے آیات:النسائ: ۱۴۴،المائدۃ: ۵۱،النسائ: ۸۹)اس معاملہ میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انھوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ مبادا ان کے واسطے سے ان کے اسرار کفار تک نہ پہنچ جائیں ( التوبۃ : ۲۳)
قرآن کریم کی بعض آیات میںان اسباب کی وضاحت کردی گئی ہے جن کی بناپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَکُمْ ہُزُواً وَلَعِباً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ مِن قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَآئَ ۔         (المائدۃ: ۵۷)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ۔‘‘
سورۂ ممتحنہ میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء ۔ (آیت؍ ۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
اسی سورت میں آگے ہے:
إِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (آیت: ۹)
’’وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنارکھا ہے، اس کو وہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ اللہ اورتمھارے دشمن ہیں اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کررہے ہیں، تمھیں تمھارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں یوں مذکور ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ أَکْبَرُ۔ (آل عمران؍ ۱۱۸)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔‘‘
اس آیت میں لفظ ’بطانۃ‘ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔ بطانۃ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں، جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جسے آدمی اپنا گہرا دوست اور ہم دم وہم راز بنالے۔ (۲۸)اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کردو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمھارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے صرف ایسے قریبی تعلق سے منع کیا گیا ہے جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر منکشف ہوجائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے اور یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
الاحسان والہبۃ مستثناۃ من الولایۃ۔ (۲۹)
’’غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انھیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے۔‘‘
مخالفوں سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکام کا پس منظر
قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصور جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انھیں جہاں پائیں قتل کریں۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْاْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً۔                             (التوبۃ: ۱۲۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان کافروں سے جو تمھارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں۔‘‘
فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ۔    (التوبۃ:۵)
’’۔۔ تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔‘‘
اس طرح کی آیات پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک یہ آیات ہیں اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں۔
یہ غلط فہمی درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
(الف) جب مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستایا جانے لگا تب انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا جواب دے سکتے ہیں:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُولُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ۔         (الحج: ۳۹-۴۰)
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور شمعِ اسلام کو اپنی پھونکوں سے گل کردیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، لیکن اس وقت بھی انھیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔
(البقرۃ: ۱۹۰)
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(ب)  قرآن کریم میں مذکور آیاتِ قتال کاتعلق عام حالات سے نہیں ہے، بلکہ ان میں دورانِ جنگ کے سلسلے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جب کسی گروہ سے جنگ برپا ہو تو میدانِ جنگ میں ایک فریق دوسرے فریق کے ساتھ کوئی روٗرعایت نہیں برتتا، بلکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے اور اس کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کرکے اس کی فوجی طاقت پارہ پارہ کردے۔ اس موقع پر کسی کم زوری اور نرمی کا مظاہرہ خود اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مثل ہے۔
(ج)  جنگ ایک ناپسندیدہ ،لیکن ناگزیر صورت حال ہے۔ اسی لیے مختلف مذاہب میں اس کے بارے میں احکام پائے جاتے ہیں۔ جن مذاہب میں جنگ سے متعلق کسی طرح کی تعلیم نہیں ملتی ان کے پیرووں کو بھی مختلف مواقع پر جنگ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مذہبی کتابوں میں جنگ سے متعلق احکام و قوانین ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا تعلق دشمن قوم کے ساتھ عام برتاؤ سے ہے، بلکہ ظاہر ہے کہ ان میں جنگ کی مخصوص صورت حال کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہندو مت کی مذہبی کتابوں کے چند حوالے دیے جاتے ہیں:
’’اے اِندر، ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ، جو مال غنیمت حاصل کرتی ہے۔ تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، ہم ہر دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر، ہم تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کرکے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ‘‘۔(۳۰)
’’اے اگنی، ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر، ہمارے دشمنوں کو بھگادے ۔ اے اجیت، دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر اور اپنے پجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر‘‘۔(۳۱)
’’اے مینو، طاقت ور سے زیادہ طاقت ور ہوکر ادھر آ اور اپنے غضب سے ہمارے تمام دشمنوں کو ہلاک کردے، دشمنوں اور ورتیروں اور دسیوں کو قتل کرنے والے۔ تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا‘‘۔(۳۲)
بھاگوت گیتا کا تو موضوع ہی جنگ ہے۔ یہ در اصل کرشن جی کے اس طویل اپدیش پر مشتمل ہے جو انھوں نے پانڈؤوں کے سردار ارجن کو، جنگ پر ابھارنے اور لڑنے کی ترغیب دینے کے لیے دیا تھا۔
(د)  ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان آیات کا خطاب اسلامی ریاست اور اس کی فوج سے ہے۔ قرآن نے تمام مسلمانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے دی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں غیر مسلموں کو قتل کردیں، بلکہ اسلامی ریاست سے دشمنی رکھنے والے غیر مسلموں سے جنگ کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سربراہِ ریاست کو ہے۔ اسی کو طے کرنا ہے کہ جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور کی جائے تو کب اور کیسے؟ رعایا پر ہر حال میں اس کی اطاعت لازم ہے۔ علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
أمر الجہاد مو کول الی الامام واجتہادہ، ویلزم الرعیّۃ طاعتہ فیما یراہ من ذلک۔(۳۳)
’’جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے۔‘‘
جن آیات میں’ کفار و مشرکین‘ سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، اگر ان کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوگا، بلکہ پڑھنے والے پر ان کی معقولیت آشکارا ہوگی۔
حواشی و مراجع
(۱)    قرطبی، الجامع لاحکام القرآن،الہیئۃ المصریۃ العامۃ،۱۹۸۷ئ،۱۴؍۱۲۶
(۲)    ایضاً
(۳)    ایضاً،۵؍۱۸۳۔ علامہ قرطبی نے ان کا نام نوف الشامی بتایا ہے۔
(۴)    صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من کان یومن باللہ و الیوم الآخر دلا یوذ جارہ، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار
(۵)    صحیح بخاری، کتاب الادب، باب اثم من لایأمن جارہ بوائقہ، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم ایذاء الجار
(۶)    بخاری، الادب المفرد،۱؍۲۲، سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی حق الجوار
(۷)    ابن کثیر، ابوالفداء عماد الدین اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم (تفسیر ابن کثیر) المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ مصر، ۱۳۵۶ھ، ۴/۳۴۹، لسان العرب، ۴/۵۴، مادہ ’بر‘
(۸)    راغب الاصفہانی ،المفردات فی غریب القرآن،المطبعۃ المیمنیۃ مصر،۱۳۲۴ھ، ص۹۳
(۹)    ابن العربی، ابوبکر محمد بن عبداللہ المالکی الإشبیلی، احکام القرآن، مطبعۃ السعادۃ مصر، ۱۳۳۱ھ، ۲/۲۴۹، الماوردی، ابوالحسن علی بن حبیب البصری، النکت والعیون (تفسیر الماوردی)، مطابع المقہوی الکویت، ۱۴۰۲ھ، ۴/۲۲۳، تفسیر قرطبی، ۱۸/۵۹، رازی، فخرالدین محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) المطبعۃ العامرۃ مصر، ۱۳۰۸ھ، ۸/۱۳۴
(۱۰)    تفسیر قرطبی، ۱۸/۵۹
(۱۱)    حوالہ سابق
(۱۲)     تفسیر کبیر،۸/۱۳۴
(۱۳)    ابو جعفر محمد بن جریر  الطبری ، جامع البیان عن تأویل آی القرآن (تفسیر الطبری)،دار المعارف مصر ۱۹۶۹ئ،۵؍۵۸۸، تفسیر کبیر،۲؍۳۶۵
(۱۴)    بخاری ،الادب المفرد، باب کیف الرد علی أھل الذمۃ،۲؍۵۳۳
(۱۵)    صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب التسلیم فی مجلس فیہ أخلاط من المسلمین و المشرکین ، صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب ما لقی النبی ﷺ۔۔۔۔الخ
(۱۶)    احمد بن علی بن حجر العسقلانی ،فتح الباری بشرح صحیح البخاری،دار المعرفۃ بیروت،۱۱؍۴۱
(۱۷)    عبد الرزاق، المصنّف، کتاب أھل الکتاب، باب السلام علی أھل اکتاب
(۱۸)    صحیح بخاری، کتاب البیوع ، باب شراء النبی ﷺبالنسیئۃ و دیگر ابواب، صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب الرھن و جوازہ فی الحضر کالسفر
(۱۹)    صحیح بخاری، کتاب البیوع ، باب الشراء و البیع مع المشرکین  و أھل الحرب، صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، باب اکرام الضیف
(۲۰)    صحیح بخاری، کتاب المزارعۃ، باب المزارعۃ مع الیھود و دیگر ابواب، صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ،باب المساقاۃ و المعاملۃ بجزء من الثمر و الزرع
(۲۱)    صحیح بخاری، کتاب الاجارۃ ، باب استئجار المشرکین عند الضرورۃ
(۲۲)    صحیح بخاری، کتاب الاجارۃ، باب ھل یواجر الرجل نفسہ من مشرک فی دار الحرب
(۲۳)    نووی، شرح صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ ،باب الرھن
(۲۴)    تفسیر قرطبی
(۲۵)    تفسیر کبیر
(۲۶)    المفردات فی غریب القرآن،۵۵۵
(۲۷)    ابو القاسم  جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل، مصطفی البابی الحلبی و اولادہ مصر،۱۹۷۳ئ،۱؍۶۱۹
(۲۸)    تفسیر طبری،۷؍۱۳۸، کشاف،۱؍۴۵۸،تفسیر قرطبی،۴؍۱۷۸
(۲۹)    تفسیر قرطبی، ۸/۹۴
(۳۰)    رگ وید، ۶: ۱: ۸-۱۳
(۳۱)    یجروید، ۹:۳۷
(۳۲)    اتھروید، ۴:۳۲:۱-۳
(۳۳)    ابن قدامۃ، ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد المقدسی، المغنی علی مختصر الخرقی، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ ریاض، ۱۹۸۱ئ، ۸/۳۵۲

٭٭٭
محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
معاون مدیر سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ