قرآن مجید کے قدیم ترین نسخہ کا انکشاف
جوبرطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی ایک لائبریری سے ملاہے محققین کے مطابق یہ حضر ت ابوبکر صدیق ( رضی اللہ عنہ ) کے دورمیں لکھا گیاتھا
جولائی 2015 میں برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی ایک لائبریری سے ملنے والے
قرآن پاک کے قدیم ترین نسخے کے منظرعام پرآنے کی خبر نے اس وقت ایک تہلکہ مچا دیا
تھا جب پتا چلا کہ قرآن کا یہ حصہ اب تک دستیاب قرآن پاک کے پرانے نسخوں میں سب سے
قدیم ہے۔
برمنگھم یونیورسٹی کی جانب سے کیے جانے والے ریڈیو کاربن ٹٰیسٹ سے قرآن پاک کے
نسخے کے لیے استعمال کی گئی جلد کی عمر کا پتا چلایا گیا تو معلوم ہوا تھا کہ یہ
جلد 1370 برس یا اس سے بھی پہلے کی ہے۔ دبئی میں قائم تحقیقات اسلامی کے
ادارے’’محمد بن راشد آل مکتوم فاؤنڈیشن‘‘ سے وابستہ اسلامی اسکالر جمال بن حویرب
نے بھی اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ قرآن کریم کا مذکورہ نسخہ 1370 برس سے پہلے
یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تحریر کیا گیا ہے۔
دبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بن حویرب نے ’’بی بی سی‘‘ ریڈیو کی جانب
سے کیے گئے اس دعوے کو درست قرار دیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ قرآنی
نسخہ اسلامی تحقیقات کے باب میں قرآن کی سب سے پرانی دستاویزات قرار دیا جا سکتا
ہے۔اسے ممکنہ طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مرتب کیا
گیا۔ اسے ’اصل القرآن‘ کہنا درست ہو گا کہ قرآن کا جو پرانا حصہ ملا ہے وہ
موجودہ قرآنی نسخوں سے حرف بہ حرف یکسانیت رکھتا ہے۔ دستیاب ہونے والے پرانے نسخے
کو بجا طور پر قرآنی تحقیقات کے باب میں ایک انقلابی قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم کا یہ نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر تحریر کیا گیا۔ کاربن ریڈیو
ٹیسٹ سے 95.4 فی صد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھیڑ یا بکری کی کھال 568ء سے 645ء کے
درمیان اتاری گئی تھی۔ سیرت نبوی کی کتب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت
23 اپریل 571ء بتائی جاتی ہے اور بعث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز سنہ 610 اور
وفات رسول 632ء میں مدینہ منورہ میں ہوتی ہے۔ ٹیسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور
کی کھال پر قرآن پاک کا یہ نسخہ لکھا گیا وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
دور میں موجود تھا۔
برمنگھم یونیورسٹی میں قدیم اسلامی اور مسیحی مخطوطات کے ماہر پروفیسر ڈیود
ٹامس کہتے ہیں کہ یہ قرآن پاک کا یہ نسخہ ہمیں نبی اکرم آخر الزمان صلی للہ علیہ
وسلم کے دور کے بہت قریب لے جاتا ہے۔ حجازی رسم الخط میں لکھے اس قدیم قرآنی نسخے
نے قرآن پاک کے بارے میں بہت سے شکوک وشبہات کو ختم کر دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا
ہے کہ قرآن پاک جیسا کہ نبی کے دور میں تھا ایسا ہی چودہ سوسال بعد آج بھی امت کے
پاس اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں کی گئی ہے۔
پروفیسر ٹامس کہتے ہین قرآن نسخے کا کاتب کوئی صحابی رسول ہے جس نے آخری نبی
کی صحبت اختیار کی یا کم سے کم وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر جانتا
بھی تھا۔ اگر یہ بھی نہیں تواس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بار ضرور دیکھا ہو
گا۔ جس دور میں قرآن کا یہ نسخہ لکھا گیا اس دور میں قرآن اگرچہ کسی مربوط کتابی
شکل میں نہیں تھا ۔ کچھ حصہ کجھور کی چھال پر، جانوروں کی کھال اوراونٹوں کی ہڈیوں
پر لکھا گیا تھا۔
یہاں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا کتابت کتاب اللہ کے اس نسخے کی آیات کا
کاتب کون ہے۔ اس حوالے سے غالب امکان ہے کہ کتابت آیات کا فریضہ کسی صحابی رسول
صلی للہ علیہ وسلم نے انجام دیا مگر یہ کتابت حضرت ابو بکر صدیق کے 27 ماہ دور
خلافت میں ہوئی ہوگی۔ اگر کتابت قرآن حضرت ابو بکر کے دور میں نہیں ہوئی تو بالقین
کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام دوسرے خلیفہ فاروق اعظم کے دور میں ہوا تھا۔
دور رسالت میں کتابت قرآن کا امکان
اسلامی اورعیسائیت پر تحقیقات کرنے والے مستشرق اور برمنگھم یونیورسٹی کے
پروفیسر ڈیوڈ ٹامس کا کہنا ہے کہ غالب امکان یہ ہے کہ جس جانور کی کھال پر قرآن کا
یہ حصہ لکھا گیا وہ دور نبوت میں زندہ تھا۔ یہ امکان بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے اعلان نبوت سے قبل بھی وہ جانور موجود تھا۔
اس سے قبل پروفیسر ٹامس نے دعویٰ کیا تھا کہ قرآن کا مذکورہ نسخہ حضرت ابو
بکرصدیق کے وصال اور تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت
کے درمیان 20 سال کے عرصے میں مرتب کیا گیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ اس سے پیشتر بھی صدر
اسلام کے ابتدائی برسوں کے دوران لکھے گئے قرآن کریم کے اس نسخے کے حوالے سے ایک
جامع رپورٹ میں روشنی ڈال چکا ہے۔ اس رپورٹ میں بھی یہ بتا دیا گیا تھا کہ قرآن
کریم کا دستیاب نسخہ حجازی رسم الخط میں لکھا گیا اور یہ عربی زبان کا قدیم ترین
رسم الخط ہے۔
قران کریم کے قدیم ترین نسخے کی عمر کا سو فی صد تعین کرنا ذرا مشکل ہے۔ تاہم
امکان ہے کہ یہ نسخہ دور رسالت میں بھی لکھا گیا ہے۔ اگر یہ قرآنی نسخہ خود آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں لکھا تو بھی آپ نے اسے دیکھا اور اس پر کوئی تبصرہ
ضرور فرمایا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ قرآنی تحریر آپ کے پاس رہی ہوگی اور
اسے آپ کی نظر مبارک نے بھی دیکھا ہو گا۔
برمنگھم میں پائے جانے والے صفحات کے بارے میں سب سے زیادہ حیران کن بات’
کاربن ڈیٹنگ‘ کے طریقہ کار سے سنہ 568 اور سنہ 645 کے درمیان ان دستاویزات کی
تاریخ کا تعین ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 632 ء میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے جب کہ اس
نسخے کی تحریر کی آخری تاریخ 645 عیسوی کی ہے، یعنی آپ کی رحلت کے صرف 13 برس بعد
اسے لکھا گیا۔
برمنگھم یونیورسٹی میں عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ ٹامس نے وضاحت کرتے
ہوئے کہا کہ جس شخص نے ان صفحات کو تحریر کیا وہ یقینی طور پرآن حضور صلی اللہ
علیہ وسلم اسلام کو جانتا ہو گا، آپ سے ملا ہو گا اور آپ کی صحبت اختیار کی ہو گی۔
قرآنی نسخہ عراقی راہب نے خریدا
برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور
یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں
رکھے ہوئے تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس
میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشونال دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے
صفحات سے ملتے ہیں۔
لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا
دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے
صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ایک ہی نسخے کے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن شریف کے صفحات تلاش کرنے والے محقق
البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک
ہی نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں
مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر
قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔
پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور
قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس
کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔
اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ
متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ
آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا
خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔
پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں رہے لیکن
اس طرح منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی
گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔