فلسفۂ کائنات کا قرآنی تصور

فلسفۂ کائنات  کا قرآنی تصور 

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ   ،  الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا  ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ بَّنَآ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهٗ ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ     رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّاڰ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ     
رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ      سورہ آل عمران : 190-194)

ترجمہ  " زمیناور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کےلیے بہت نشانیا ں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غورو فکر کرتے ہیں۔ وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں﴾”پروردگار! یہ سب کچھ تُو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تُو پاک ہے اس سے کہ عبث کا م کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ،تُو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسےدرحقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔ مالک! ہم نے ایک پکار نے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی،پس اے ہمارے آقا!جو قُصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انھیں دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔خدا وند! جو وعدے تُو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کےدن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال ، بے شک تُو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے۔“


"  محبت دنیا کے ان اندھوں کا ذکر کرنے کے بعد، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کے لیے اس قسم کی کٹ حجتیاں پیدا کر رہے تھے جن کی تفصیل اوپر بیان ہوئی اب یہ ان ارباب بصیرت کا بیان ہورہا ہے جو اللہ کو ہر جگہ اور ہر حال میں یاد رکھتے ہیں اور زمین و آسمان کی خلقت پر برابر غور کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ ذکر و فکر خود بخود ان کو اس نتیجے تک پہنچا دیتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ بے غایت و بے مقصد نہیں ہوسکتا، اور جب بے غایت و بے مقصد نہیں ہوسکتا تو لازم ہے کہ محض اتنے ہی پر تمام نہ ہوجائے جتنا ظاہر ہو رہا ہے بلکہ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں گنہگار اور نیکو کار دونوں اپنے اپنے اعمال کا بدلہ پائیں اور اس دنیا کی خلقت میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے وہ ظاہر ہو ۔

 آسمان و زمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمد و شد میں جو نشانیاں ہیں ان کی طرف یہاں صرف اجمالی اشارہ ہے۔ ان کی تفصیل پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ گوناگوں پہلوؤں سے آفاق کی ان نشانیوں کو نمایاں کیا ہے جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے صرف ایک عظیم طاقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عظیم حکمت بھی ہے، صرف بے پناہ قدرت ہی نہیں بلکہ بے پایاں رافت و رحمت بھی ہے۔ صرف بے اندازہ کثرت ہی نہیں ہے بلکہ اس کثرت کے اندر نہایت حیرت انگیز توافق و توازن بھی ہے۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اس دنیا کا پیدا ہونا نہ تو کوئی اتفاق سانحہ ہے نہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے بلکہ یہ ایک قدیر و حکیم، عزیز و غفور اور سمیع و علیم کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اس وجہ سے یہ بات اس کی فطرت کے خلاف ہے کہ خیر و شر اور نیک و بد کے درمیان اتمیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے یا یوں ہی تمام ہوجائے۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو اس کا کوئی خالق و مالک ہی نہیں ہے، یہ آپ سے آپ کہیں سے آ دھمکی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی یا یہ کہ نعوذ باللہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرے مزاج کا ہے جو کسی کو گداگر، کسی کو تونگر، کسی کو ظالم اور کسی کو مظلوم بنا کر اس کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں اس قدرت اور اس حکمت کے بالکل منافی ہیں جن کی شہادت اس کائنات کے گوشے گوشے سے مل رہی ہے۔ ایسی علیم و حکیم ہستی کی شان علم و حکمت کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے حکمت کام کرے ۔

اس طرح اس کائنات کی قدرت و حکمت پر غور کرنے والا شخص نہ صرف خدا تک بلکہ اقرار آخرت تک خود پہنچ جاتا ہے اور جس کا ذہن اس حقیقت تک پہنچ جائے گا ظاہر ہے کہ جزا و سزا کے تصور سے اس کا دل کا نپ اٹھے گا اور اس کے اندر شدید داعیہ اس بات کے لیے پیدا ہوگا کہ وہ اس عذاب اور اس رسوائی سے پناہ مانگے جو ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو اس دنیا کو بس ایک کھلنڈرے کا کھیل سمجھتے رہے اور اس طرح انہوں نے اپنی ساری زندگی بالکل بطالت میں گزار دی ۔


 یہ ان آیات کا سیدھا سادا مطلب ہوا۔ ان پر مزید غور کیجیے تو چند اور باتیں بھی سامنے آئیں گی اور وہ بھی نہایت قیمتی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کے نزدیک اولو الالباب صرف وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کے نظام پر غور کر کے خدا کے ذکر اور آخرت کی فکر تک رہنمائی حاصل کریں۔ جن کو یہ چیز حاصل نہیں ہوئی وہ اگرچہ آسمان و زمین کی تمام مسافت ناپ ڈالیں اور چاند و مریخ تک سفر کر آئیں لیکن وہ اولو الالباب نہیں ہیں۔ ان کے سروں پر کھوپڑیاں تو ہیں لیکن ان کے اندر مغز نہیں ہے۔ اگر ان کے اندر مغز ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ انہیں سب کچھ نظر آجاتا اور یہ تل کی اوٹ میں چھپاہوا پہاڑ نظر نہ آتا۔ دوسری یہ کہ جہاں تک خدا کا تعلق ہے وہ فکر و نطر کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اس کائنات کی بدیہی حقیقت بلکہ ابدہ البدیہیات ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی منادی کر رہا ہے۔ ہماری فطرت اس کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان کے اندر اگر عقلِ سلیم ہو تو وہ خدا کو اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح سلیم آنکھ سورج کو دیکھتی ہے۔ خدا کو پانے کے لیے یہ کافی ہے کہ انسان اس کو یاد رکھے۔ البتہ آخرت کا معاملہ تفکر و تدبر کا محتاج ہے۔ تیسری یہ کہ جہاں تک ذکرِ الٰہی کا تعلق ہے وہ ہر حال میں مطلوب ہے۔ اس کے لیے قیام و قعود، نرمی و گرمی اور صبح و مسا کی کوئی قید نہیں ہے۔ انسان کی مادی زندگی کے بقا کے لیے جس طرح سانس کی آمد و شد ضروری ہے اسی طرح اس کی روحانی زندگی کے بقا کے لیے اللہ کی یاد ضروری ہے اور قرآن کی زیر بحث آیات سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اولو الالباب کی خاص صفت یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ چوتھی یہ کہ دین میں جس طرح ذکر مطلوب ہے اسی طرح فکر بھی مطلوب ہے۔ اگر ذکر ہو اور فکر نہ ہو تو بسا اوقات یہ ذکر صرف زبان کا ایک شغل بن کے رہ جاتا ہے۔ اس سے معرفت کے دروازے نہیں کھلتے۔ اولوالالباب کے ذکر کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس کے اتھ فکر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے قدم درجہ بدرجہ حکمت و معرفت میں راسخ ہوتے جاتے ہیں اس لیے کہ یہی فکر، آخرت کے یقین کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ پانچویں یہ کہ اس کائنات میں تفکر سے جس طرح اولوالالباب اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے اس وجہ سے ایک روز عدل کا ظہور ضروری ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی ان پر واضح ہوجاتی ہے کہ اس دن حقیقی رسوائی سے وہ لوگ دو چار ہوں گے جو جھوٹی شفاعتوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اس لیے کہ اس دن ایسے بدقسمتوں کا کوئی بھی مددگار نہ ہوگا ۔"  ( مولانا امین احسن اصلاحی )

"اللہ کی توحید اور فردیت کی، اس کی حکمت وصنعت کی اور اس کی قدرت وحاکمیت کی نظام فلکی اور اس کی تفصیلات، چاند، سورج، ستاروں کی تعداد، ان کے درمیان فاصلے، ان کے باہمی تعلقات وتاثرات، ان کی گردشوں کی پیمائش، گرہن کے اسباب واوقات، انکے طلوع وغروب، نور وحرارت وغیرہ کے قاعدہ ضابطہ، اس قسم کی تفصیلات سے علم ہیئت کی کتابوں کے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ رہی زمین تو ہیئت ارض، مساحت ارض، طبقات ارض، معدنیات ارض، کشش ارض، ہواؤں اور موسموں کے تغیرات وغیرہ کے لیے تو کوئی ایک پورا فن بھی کافی نہ ہوا بلکہ جغرافیہ، جغرافیہ طبعی، جیالوجی، فزالوجی، میٹیر ولوجی، آرکیالوجی خدا جانے کتنے فنون پر فنون نکلتے چلے آرہے ہیں اور حکمت باری اور صنعت باری کے انداز اور تخمینے ختم ہونے کے قریب بھی نہیں آرہے ہیں ! آیت میں ضمنا ان مشرک قوموں کا بھی رد آگیا جنہوں نے آسمان یا زمین یا رات دن کو دیوی دیوتا سمجھا ہے، معبودیت کی صلاحیت ان میں سے کسی میں بھی نہیں، یہ سب کے سب مملوک ومسخر ہیں ایک صانع اعظم کے ۔"  (مولانا عبد الماجد دریاآبادی ) 

 قرآن کی رو سے   ایک مسلم فلسفی کے  کائنات اور حیات کے بارے میں بنیادی تصور ات یہ ہیں : 
1۔ اللہ تعالی "رب العالمین  " ہے ۔ 
2۔  محمد رسول اللہ ﷺ " رحمۃ للعالمین " ہے ۔ 
3۔ القرآن " ھدی للعالمین " ہے۔