وجود الہ اور وحدت الہ کے شواہد


وجود الہ اور  وحدت الہ کے شواہد

مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودویؒ



ارشاباری تعالی :- 


"اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ  ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ  ۭ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ "  (سورۃ النمل : 64 )

یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے اپنے ا ندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اترتا جاتا ہے اتنے ہی وجود الہ اور وحدت الہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں، پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے، اس وقت تک مسلم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بےجان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہوسکتی، حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقا جمع ہوکر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق (law of Chance) کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا، اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معملوں (Labo ratories) میں بےجان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے باوجود وہ سب قطعی ناممکن ہوچکی ہیں، زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں (D.N.A) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جوہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں ہے۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔
اس کے بعد آگے دیکھیے۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بےشمار متنوع صورتوں میں پائی جاتی ہے، اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریبا 10 لاکھ اور اور نباتات کی تقریبا دو لاکھ انواع کا پتہ چلا ہے۔ یہ لاکھوں   انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہیں، اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے (Design) کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اور معقول توجیہ کردینا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو۔ متحجرات (Fossils) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثی مشکل کہیں نہیں ملا ہے۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے اپنی پوری صورت نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے بہم پہنچ جانے کا وقتا فوقتا سنا دیا جاتا ہے۔ تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم، ایک خالق الباری المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں ۔
یہ تو ہے ابتدائے خلق کا معاملہ۔ اب ذرا عادۃ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و ترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل (Mechanism) رکھ دیا ہے جو اس کے بےشمار افراد میں سے بےحد و حساب نسل ٹھیک کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ تناسل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے۔ جدید علم تناسل (Genetics) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں۔ ہر پودے میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے (Cell) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے بمشکل انتہائی طاقت ور خوردبین سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشوونما کو حتما اسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے گہیوں ہی پیدا کیا ہے، کسی آب و ہوا اور کسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہ جو پیدا ہوجاتا، ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہوکر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادۃ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اسی نوع کے بےشمار افراد وجود میں لاتا چلا جارہا ہے۔ اگر کوئی شخص توالد و تناسل کے اس خورد بینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے، اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بےانتہا لطیف و پر پیچ عملیات (Progresses) کو دیکھے جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخم تناسل اسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے، تو اہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے، بلکہ ہر آن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک نظام و مدبر اور ایک حی و قیوم کی طلاب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی و رہنمائی سے غافل نہ ہو۔
یہ حقائق ایک دہریے کے انکار خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی، کون احمق یہ گمان کرسکتا ہے کہ خدا کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے، اور کون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہوکر یہ کہہ سکتا ہے کہ سارا کارخانہ خلق و اعادۃ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقا شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جارہا ہے۔

(سورة النمل حاشیہ نمبر : 80، تفہیم القرآن ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )