الوہیت اور علم غیب، سید ابوالاعلی مودودیؒ




ارشاد باری تعالی ہے :-

"قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ" 

ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔  (سورۃ النمل : 65) 

سید ابوالاعلی مودودی ؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

" اوپر تخلیق، تدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے الہ واحد (یعنی اکیلے خدا اور اکیلے مستحق عبادت) ہونے پر استدلال کی گیا تھا۔ اب خدائی کی ایک اور اہم صفت، یعنی علم کے لحاظ سے بتایا جارہا ہے کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ لاشریک ہے، آسمان و زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں، خواہ فرشتے ہوں یا جن یا انبیاء اور اولیاء یا دوسرے انسان اور غیر انسان، سب کا علم محدود ہے، سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے۔ سب کچھ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس سے اس کائنات کی کوئی چیز اور کوئی بات پوشیدہ نہیں، جو ماضی و حال اور مستقبل سب کو جانتا ہے۔

غیب کے معنی مخفی، پوشیدہ اور مستور کے ہیں۔ اصطلاحا اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو معلوم نہ ہو، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو۔ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو فردا فردا بعض انسانوں کے علم میں ہیں اور بعض کے علم میں نہیں ہیں، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بحیثیت مجموعی پوری نوع انسانی کے علم میں نہ کبھی تھیں نہ آج ہیں نہ آئندہ کبھی آئیں گی، ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں اور دوسری مخلوقات کا ہے کہ بعض چیزیں ان میں سے کسی سے مخفی اور کسی کو معلوم نہیں، اور بےشمار چیزیں ایسی ہیں جو ان سب سے مخفی ہیں اور کسی کو بھی معلوم نہیں۔ یہ تمام اقسام کے غیب صرف ایک ذات پر روشن ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں، سب شہادت ہی شہادت ہے۔

اس حقیقت کو بیان کرنے میں سوال کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو اوپر تخلیق و تدبیر کائنات اور رزاقی کے بیان میں اختیار کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صفات کے آثار تو بالکل نمایاں ہیں جنہیں ہر شخص دیکھ رہا ہے، اور ان کے بارے میں کفار و مشرکین تک یہ مانتے تھے اور مانتے ہیں کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، اس لیے وہاں طرز استدلال یہ تھا کہ جب یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں اور کوئی ان میں اس کا شریک نہیں ہے تو پھر خدائی میں تم نے دوسروں کو کیسے شریک بنالیا اور عبادت کے مستحق وہ کس بنا پر ہوگئے؟ لیکن علم کی صفت اپنے کوئی محسوس آثار نہیں رکھتی جن کی طرف اشارہ کیا جاسکے۔ یہ معاملہ صرف غور و فکر ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس لیے اس کو سوال کے بجائے دعوے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، اب یہ ہر صاحب عقل کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام ان احوال اور اشیاء اور حقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں، یا اب ہیں، یا آئندہ ہوں گی، اور اگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا تو پھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریاد رس اور حاجت روا اور مشکل کشا ہوسکے؟

الوہیت اور علم غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان نے جس ہستی میں بھی خدائی کے کسی شائبے کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ خیال ضرور کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گویا انسان کا ذہن اس حقیقت سے بالکل بدیہی طور پر آگاہ ہے کہ قسمتوں کا بنانا اور بگاڑنا، دعاؤں کا سننا، حاجتیں پوری کرنا اور ہر طالب امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اسی ہستی کا کام ہوسکتا ہے جو سب کچھ جانتی ہو اور جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو، اسی بنا پر تو انسان جس کو بھی خدائی اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اسے لازما عالم الغیب بھی سمجھتا ہے، کیونکہ اس کی عقل بلا ریب شہادت دیتی ہے کہ علم اور اختیارات باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اب اگر یہ حقیقت ہے کہ خالق اور مدبر اور مجیب الدعوات اور رازق خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے جیسا کہ اوپر کی آیات میں ثابت کیا گیا ہے تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے، آخر کون اپنے ہوش و حواس میں یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی فرشتے یا جن یا نبی یا ولی کو، یا کسی مخلوق کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میں اور ہوا میں اور زمین کی تہوں میں اور سطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اور عالم بالا کے بےحدو حساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک میں کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟ اور ان مخلوقات کا ایک ایک فرد کہاں ہے اور کیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کو تو لازما معلوم ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے، اور اسی کو ان کے معاملات کی تدبیر اور ان کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے اور وہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے، لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود وجود میں یہ وسیع و محیط علم رکھ کیسے سکتا ہے اور اس کا کیا تعلق اس کار خلاقی و رزاقی سے کہ وہ ان چیزوں کو جانے؟

پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بندہ مثلا صرف زمین کی حد تک اور زمین میں بھی صرف انسانوں کی حد تک عالم الغیب ہو، یہ اسی طرح قابل تجزیہ نہیں ہے جس طرح خدا کی خلاَّقی و رزَّاقی اور قَیُّومی و پروردگاری قابل تجزیہ نہیں ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوں گے، رحم مادر میں استقرار کے وقت سے آخری ساعت حیات تک ان سب کے تمام حالات و کیفیات کو جاننا آخر کس بندے کا کام ہوسکتا ہے؟ اور وہ کیسے اور کیوں اس کو جانے گا ؟ کیا وہ اس بےحدو حساب خلقت کا خالق ہے؟ کیا اس نے ان کے باپوں کے نطفے میں ان کے جرثومے کو وجود بخشا تھا ؟ کیا اس نے ان کی ماؤں کے رحم میں ان کی صورت گری کی تھی؟ کیا اس نے ان کی زندہ ولادت کا انتظام کیا تھا ؟ کیا اس نے ان میں سے ایک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی؟ کیا وہ ان کی موت اور حیات ان کی صحت اور مرض، ان کی خوشحالی اور بدحالی اور ان کے عروج اور زوال کے فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے؟ اور آخر یہ کام کب سے اس کے ذمے ہوا ؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے اس کے بعد؟ اور صرف انسانوں کی حد تک یہ ذمہ داریاں محدود کیسے ہوسکتی ہیں؟ یہ کام تو لازما زمین اور آسمانوں کے عالمگیر انتظام کا ایک جز ہے، جو ہستی ساری کائنات کی تدبیر کررہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش و موت اور ان کے رزق کی تنگی و کشادگی اور ان کی قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ دار ہوسکتی ہے۔

اسی بنا پر یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے، اور کسی غیب یا بعض غیوب کو اس پر روشن کردے، لیکن علم غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے۔

" وعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ "

" اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انہیں کوئی نہیں جانتا اس کے سوا" (الانعام، آیت 59)


" اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚوَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۔ "

" اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے، اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم میں کیا (پرورش پارہا) ہے اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آئے گی"۔ (لقمان، آیت 34)


" يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ "


" وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اور اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی وہ احاطہ نہیں کرسکتے الا یہ کہ وہ جس چیز کا چاہے انہیں علم دے"۔ (البقرہ، آیت 255)


قرآن مجید مخلوقات کے لیے علم غیب کی اس عام اور مطلق نفی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ خاص طور پر انبیاء علیہم السلام اور خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اس امر کی صاف صاف تصریح کرتا ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں اور ان کو غیب کا صرف اتنا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے جو رسالت کی خدمت انجام دینے کے لیے درکار تھا۔ سورۃ انعام کی آیت 50، الاعراف آیت 187، التوبہ آیت 101، ہود آیت 31، احزاب آیت 63، الاحقاف آیت 9، التحریم آیت 3، اور الجن آیات 26 تا 28، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں چھوڑتیں ۔


قرآن کی یہ تمام تصریحات زیر بحث آیت کی تائید و تشریح کرتی ہیں جن کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی" جمیع ماکان وما یکون" کا علم رکھتا ہے، قطعا ایک غٰر اسلامی عقیدہ ہے۔ شیخین (امام بخاری اور مسلم ) ترمذی، نسائی، امام احمد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ" من زعم انہ رای النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعلم ما یکون فی غد فقد اعظم علی اللہ الفریۃ واللہ یقول " قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ "


یعنی جس نے یہ دعوی کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پر سخت جھوٹ کا الزام لگایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے"۔ ابن المنذر حضرت عبداللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا " اے محمد،ﷺ ! قیامت کب آئے گی؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے، بارش کب ہوگی؟ اور میری بیوی حاملہ ہے، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے، کل میں کیا کماؤں گا ؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں، مروں گا کہاں؟ ان سوالات کے جواب میں سورۃ لقمان کی وہ آیت حضور نے سنائی جو اوپر نقل کی ہے۔" اِنَّ اللہَ عِندَہُ عِلمَ السِّاعَۃِ"۔ پھر بخاری و مسلم اور دوسری کتب حدیث کی وہ مشہور روایت بھی اسی کی تائید کرتی ہے جس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبریل ؑ نے انسانی شکل میں آکر حضور سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضور نے جواب دیا" ما المسئول عنھا باعلم من السائل۔" (جس سے پوچھا جارہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا)۔ پھر فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور یہی مذکورہ بالا آیت حضور نے تلاوت فرمائی۔


-----------------------------------
(تفہیم القرآن ، سورة النمل حاشیہ نمبر : 83 ، مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی ؒ )