تاریخ قرآن مجید (حصہ اول ) - ڈاکٹر حمید اللہ ؒ

محقیقین کا خیال ہے کہ یہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رض کے دور میں لکھا گیا ہے
قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ 

"قرآن مجید ایک ایسا موضوع ہے جس کے بہت سے پہلو ہیں اور ایک گھنٹے کے مختصر وقت میں یہ ممکن نہیں کہ ان سارے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاسکے۔ اس لیے صرف اس کے ایک پہلو یعنی تدوین قرآن مجید کی تاریخ کو چند الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔



مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں ایک حدیث ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ “اللہ نے حضرت آدم سے لے کر مجھ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ جن میں سے تین سو پندرہ صاحب کتاب تھے”۔ تین سو پندرہ صاحب کتاب نبیوں کے نام نہ تو قرآن مجید میں ہیں اور نہ احادیث میں ان کا ذکر ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کی تفصیل معلوم کرسکیں۔ صرف چند اشارے ملتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر دس صحیفے نازل ہوئے تھے۔ لیکن یہ ہماری بدنصیبی ہے ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس زبان میں تھے۔ چہ جائیکہ ان کے مندرجات کا علم ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹھے حضرت شیث علیہ السلام بھی پیغمبر تھے ان کے متعلق بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ ان پر بھی چند کتابیں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن ان کا بھی دنیا میں اب کوئی وجود نہیں۔ قدیم ترین نبی، جن کی طرف منسوب کتاب کا کچھ حصہ ابھی حال ہی میں ہم تک پہنچا ہے حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔ غالباً آپ نے سنا ہو گا کہ فلسطین میں بحر مردار کے پاس بعض غاروں سے کچھ مخطوطے ملے ہیں۔ ان مخطوطوں میں سے ایک کتاب حضرت اخنوخ یا انوخ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ حال ہی میں اس کتاب کے کچھ ترجمے انگریزی زبان میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر چہ اس بات کا کوئی حتمی و قطعی ثبوت موجود نہیں، لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہم اسے قدیم ترین نبی کی کتاب کہ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں آخری نبی کی بشارت بھی ہے، جس کو بعد میں عہد جدید (انجیل) کے باب “مکتوب یہودا” نے بھی نقل کیا ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بھی ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں۔ عراق میں “صابیہ” کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے جس کا ایک مستقل دین ہے ان کا یہ دعویٰ ہے کہ “ہم حضرت نوح علیہ السلام کی کتاب اور ان کے دین پر عمل پیرا ہیں” ان کا کہنا ہے کہ “ایک زمانے میں حضرت نوح علیہ السلام کی پوری کتاب ہمارے پاس موجود تھی لیکن امتداد زمانہ کے سبب سے اب وہ ناپید ہے۔ اس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ جن میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے”۔ اس کے بعد ایک اور نبی آئے ہیں جن کی کتاب کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (صحف ابراہیم و موسیٰ) دو مرتبہ قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ان کی کتاب کے مندرجات یہودی اور عیسائی ادبیات میں تو نہیں قرآن میں چند سطروں کی حد تک محفوظ ملتے ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے انسان بھی ہیں جن کو صراحت کے ساتھ نبی تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی نبوت کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ایک شخصیت “زردشت” کی ہے۔ پارسی انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ ان کی نبوت کا امکان اس بنا پر بھی ہے کہ قرآن مجید میں مجوس قوم کا ذکر آیا ہے۔ مجوسیوں کا مذہب زردشت کی لائی ہوئی کتاب “آوستا پر مبنی ہے” آوستا کے متعلق ہم تک کچھ معلومات پہنچی ہیں۔ جب ہم اس کا قرآن مجید سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کو کیا برتری حاصل ہے؟ زردشت کی کتاب اسوقت کی “زند” زبان میں تھی۔ کچھ عرصے بعد ایران پردوسری قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زبان وہاں رائج ہوئی۔ پرانی زبان متروک ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں مٹھی بھر عالم اور مختصصین کے سوا زند زبان جاننے والا کوئی نہ رہا اس لیے زردشتی مذہب کے عماء نے نئی زبان پازند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا صرف دسواں حصہ موجود ہے۔ باقی غائب ہو چکا ہے۔ اس دسویں حصے میں کچھ چیزیں عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہر حال دنیا کی ایک قدیم دینی کتاب کو ہم آوستا کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہاں ایک چیز کا میں اشارۃً ذکر کروں گا۔ آوستا میں دوسری باتوں کے علاوہ زردشت کا یہ بیان ملتا ہے: “میں نے دین کو مکمل نہیں کیا۔ میرے بعد ایک اور نبی آئے گا جو اس کی تکمیل کرے گا۔ اور اس کا نام رحمۃ للعالمین ہو گا” یعنی ساری کائنات کے لیے باعث رحمت۔

ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ کتابیں ہیں۔ ان مقدس کتابوں میں دید، پران، اپنشد اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کتابیں ایک ہی نبی پر نازل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئی ہوں، بشرطیکہ وہ نبی ہوں، ان میں بھی خصوصاً “پران” نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے ملتے ہیں “پران” وہی لفظ ہے جو اردو میں “پرانا” یعنی قدیم ہے۔ اس کی طرف ہمیں قرآن مجید میں ایک عجیب و غریب اشارہ ملتا ہے: (وانہ لفی زبر الاولین 26:196) اس چیز کا پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے)۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا پران سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہرحال دس پران ہیں، ان میں سے ایک میں یہ ذکر آیا ہے کہ “آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان کے علاقے میں پیدا ہو گا۔ اس کی ماں کا نام قابل اعتماد، اور باپ کا نام، اللہ کا غلام ہو گا۔ وہ اپنے وطن سے شمال کی طرف جا کر بسنے پر مجبور ہو گا۔ اور پھر وہ اپنے وطن کو متعدد بار دس ہزار آدمیوں کی مدد سے فتح کرے گا۔ جنگ میں اس کی رتھ کو اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہوں گے کہ آسمان تک پہنچ جائیں گے”۔ اس کتاب میں جو مذکورہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں ان سے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ مستنبط کیا جاسکے۔

ان پرانی کتابوں کے علاوہ وہ کتابیں ہیں جو مسلمانوں میں بالخصوص معروف ہیں، یعنی توریت، زبور اور انجیل۔ قبل اسکے کہ قرآن مجید کا آپ سے ذکر کروں بطور تمہید ان کا بھی چند الفاظ میں ذکر کروں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئی وہ “توریت” کہی جاتی ہے۔ لیکن دراصل توریت اس کتاب کا ایک جزو ہے، توریت کے معنی ہیں “قانون”۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف پانچ کتابیں منسوب کرتے ہیں، پہلی کتاب “کتاب پیدائش” کہلاتی ہے۔ دوسری کتاب “کتاب خروج” جو مصر سے نکلنے کے حالات پر مشتمل ہے۔ تیسری کتاب “قانون” ہے۔ چوتھی کتاب کا نام “اعداد و شمار ہے” کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم دیا تھا کہ یہودیوں کی قبیلے وار مردم شماری کی جائے۔ پانچویں کتاب “تثنیہ” کے نام سے موسوم ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ پرانی چیزوں کو دوبارہ دہرایا جائے، ان کو up to date کیا جائے یا ان کی تشریح کی جائے۔ شروع شروع میں یہودیوں کے ہاں یہ پانچویں کتاب (تثنیہ) نہیں پائی جاتی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوئی چھ سو سال بعد ایک جنگ کے زمانے میں ایک شخص ملک کے اس وقت کے یہودی بادشاہ کے پاس ایک کتاب لایا اور کہا کہ مجھے یہ کتاب ایک غار سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی ہے، مگر اس میں دینی احکام نظر آتے ہیں۔ بادشاہان نے اپنے زمانے کی ایک نبیہ عورت کے پاس اس نسخے کو بھیجا (یہودیوں کے ہاں عورتیں بھی نبی رہی ہیں یا کم از کم وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں) اس نبیہ نے جس کا نام ہلدا HULDA بیان کیا جاتا ہے یہ کہلا بھیجا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی کتاب ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چھ سو سال بعد اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ اس کتاب کو “تثنیہ” کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں پہلی چار کتابوں کے احکام میں سے کچھ احکام خلاصے کے طور پر اور کچھ اضافے کے ساتھ دہرائے گئے ہیں۔ بہر حال ان پانچ کتابوں کی سرگزشت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آنے والے انبیاء کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کا کچھ حصہ فتح کیا اور وہاں حکومت شروع کی تو کچھ عرصے بعد عراق کے حکمران بخت نصر (نبوکدنوصور) نے فلسطین پر حملہ کیا۔ چونکہ اس کا دین یہودیوں کے دین سے مختلف تھا اس لیے اس نے صرف ملک فتح کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ن دشمنوں کے دین کو بھی دنیا سے نیست و نابود کرنے کے لیے توریت کے تمام قلمی نسخوں کو جمع کر کے آگ لگا دی۔ حتیٰ کی توریت کا ایک نسختہ بھی باقی نہ رہا۔ یہودی مورخوں کے مطابق اس کے ایک سو سال بعد ان کے ایک نبی “حضرت عزرا” Esdra نے جو (شاید حضرت عزیر علیہ السلام ہوں) یہ کہا کہ مجھے توریت زبانی یاد ہے۔ انہوں نے توریت املا کروائ۔ توریت کے اس اعادے کے کچھ عرصے بعد روما کے ایک حکمران نے فلسطین پر حملہ کیا۔ سپہ سالار کا نام انٹیوکس تھا اس نے بھی وہی کام کیا جو بخت نصر نے کیا تھا۔ یعنی یہودیوں کی کتابیں جمع کر کے جلا دیں۔ اس طرح دوسری مرتبہ وہ نابود کر دی گئیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک اور رومی حکمران نے طیطس نامی کمانڈر کی ماتحتی میں ایک فوج بھیجی اور اس نے تیسری مرتبہ، فلسطین میں دستیاب شدہ یہودیوں کی تمام کتابوں کو جلا دیا۔ اب ہمیں توریت کے نام سے جو کتاب ملتی ہے وہ بائبل کے حصہ عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب پانچ کتابیں ہیں۔ یہ کتابیں تین چار مرتبہ کی آتش زدگی کے بعد اعادہ شدہ شکلیں ہیں۔ ان کا اعادہ کس طرح ہوا اور کس نے ان کا اعادہ کیا اس کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں۔ البتہ جو شخص ان کتابوں کو پڑھتا ہے تو اسے دو چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو کھٹکتی ہیں اور اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اصل میں نہ ہوں گی بلکہ بعد کا اضافہ ہیں۔ بعض مقامات پر کمی محسوس ہوتی ہے اور تشنگی باقی رہتی ہے چنانچہ بعض چیزیں جو زیادہ ہو گئی ہیں وہ اس طرح ہیں کہ جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اس میں وہ باتیں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئیں۔ اگر آپ کتاب “تثنیہ” پڑھیں تو اس کے آخری باب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیماری، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تدفین اور اس کے بعد کے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حصہ بعد کا اضافہ ہے۔ مگر یہ تو ایسی باتیں ہیں جنہیں ہر پڑھنے والا فوراً محسوس کر لیتا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں دیگر کتنی چیزوں کا اضافہ ہوا ہے جو غیر محسوس ہوں۔ اسی طرح جن چیزوں کی کمی نظر آتی ہے یا جن کا وہاں ہونا ضروری تھا مگر نہیں ہیں وہ ایسی ہیں کہ کم از کم بیس مرتبہ اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں کہ اس حکم کی تفصیلیں فلاں باب میں ملیں گی۔ جن ابواب کے حوالے دئے گئے ہیں ان میں سے ایک بات کا نام “خدا کی جنگیں” اور ایک اور باب کا نام “مخلص اور نیک لوگوں کی کتاب” ہے۔ اور وہ باب سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں توریت کے متعلق تھیں جو میں نے آپ سے بیان کیں۔ توریت ضخیم صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔

توریت کے بعد مسلمانوں میں عام طور پر زبور کا نام لیا جاتا ہے اور ہمارا تصور یہ رہا ہے کہ یہ بھی توریت اور انجیل ہی کی طرح ایک مستقل کتاب ہے۔ لیکن عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں جو چیز حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اور جس کو وہ سام Psalm یعنی زبور کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس میں صرف خدا کی حمدو ثناء کی نظمیں ہیں۔ کوئی نیا حکم نہیں ہے۔ ہمارا یہ تصور ہے کہ ہر نبی ایک نئی شریعت لاتا ہے لیکن اس کتاب میں ایسی کوئی نئی شریعت نہیں ملتی۔ تاہم جس طرح پرانی کتابوں میں (کتاب ادریس سے لے کر ایران کے آوستا تک) ایک آخری نبی علیہ السلام کی بشارت ملتی ہے اس طرح زبور میں بھی ایسی چیزیں ملتی ہیں۔ نیز جو سرگزشت توریت کی رہی وہی زبور کی بھی رہی ہے اس لیے میں اس کو چھوڑ کر اب انجیل کا ذکر کرتا ہوں۔


انجیل کے متعلق مسلمانوں کا تصور عام طور پر یہ ہے کہ وہ ایک مستقل کتاب تھی جو خدا کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئ۔ لیکن ہمارے پاس عیسائیوں کے توسط سے جو انجیل پہنچی ہیں وہ ایک نہیں بلکہ چار انجیلیں ہیں، جو یہ ہیں متی Matthew، مرقس Mark، لوقا Luke، یوحنہ John۔ ہر انجیل ایک الگ آدمی کی طرف منسوب ہے۔ یہ چار کتابیں بھی ساری انجیلیں نہیں ہیں بلکہ خود عیسائی مورخوں کے مطابق ستر سے زیادہ انجیلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ان چار کو قابل اعتماد اور باقی کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے ان کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے الہام یا وحی پر مشتمل نہیں بلکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ چار شخصوں نے یکے بعد دیگرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری لکھی اور ہر ایک نے اس کو انجیل کا نام دیا۔ لفظ انجیل کے معنی ہیں ” خوشخبری” اور اس کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو حالات زندگی انجیل میں ملتے ہیں ان کے مطابق عام طور پر وہ کسی گاؤں میں جایا کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں سے کہتے تھے کہ میں بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی حکمرانی اب جلد آنے والی ہے۔ شاید اس اساس پر کتاب کا نام بھی یہی ہو گیا لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کوئی کتاب نازل ہوئی تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے لکھوایا نہیں اس لیے آج دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ اب جو انجیلیں موجود ہیں، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے مختلف زمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں لکھیں اور ان سوانح عمریوں کو ہر مؤلف نے انجیل کا نام دیا۔ ان میں سے چار کو کلیسا نے قابل اعتماد قرار دیا ہے اور باقی کو رد کیا ہے۔ ان چار انجیلوں کے انتخاب کے متعلق کسی کو کوئی علم نہیں کہ ان کو کس نے انتخاب کیا، کب انتخاب کیا اور کن معیارات کو سامنے رکھ کر انتخاب کیا؟ بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لکھوائی ہوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ جو چیز اس وقت ہمارے پاس انجیل کے نام سے ملتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ انہیں ہم “سیرت حضرت عیسٰی علیہ السلام” کہہ سکتے ہیں۔ بعینہ جس طرح مسلمانوں کے ہاں سیرت نبوی کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر نازل شدہ احکام کو لکھوایا کیوں نہیں تھا؟ میرے ذہن میں جو جواب آتا ہے (ممکن ہے غلط ہو) وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان سے پہلے کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو توریت نازل ہوئی تھی اس کی کیا درگت بنی۔ دشمن حملہ کرتے ہیں اس کی توہین کرتے ہیں اسے جلا دیتے ہیں اور نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ غالباً انہوں نے یہ سوچا کہ کہیں میری کتاب کا بھی وہی حشر نہ ہو۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے لکھوایا ہی نہ جائے۔ اس طرح یہ کتاب لوگوں کے ذہنوں میں رہے گی۔ عبادت گزار نیک لوگ اسے ادب سے یاد رکھیں گے اور اپنے بعد کی نسلوں تک پہنچائیں گے۔ شاید یہی تصور ہو جس کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی انجیل کو نہ لکھوایا۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خدا چونکہ ازلی اور ابدی علم کا مالک ہے اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حضرت آدم کو ایک حکم دے اور بعد کے نبی کو کوئی دوسرا اس کے بالکل برعکس حکم دے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کو کچھ احکام اور بعد کے نبی کو کچھ اور احکام اضافے کے ساتھ دیے جائیں۔ فرض کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل شدہ کتابیں آج دنیا میں صحیح حالت میں موجود ہوتیں تو (میرا تصور یہ ہے کہ) خدا کو کوئی نئی کتاب بھیجنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ وہی کتاب آج بھی کارآمد ہوتی۔ لیکن جس طرح ابھی ہم نے اس مختصر مطالعے میں دیکھا کہ پرانے انبیاء کی کوئی کتاب بھی بلا استثناء ہم تک من و عن کامل صورت میں نہیں پہنچی ہے اس لیے خدا نے چاہا کہ ایک مرتبہ انسان کو ایسی مکمل کتاب دی جائے جس میں تمام احکام ہوں اور اس کی مشیت یہ بھی ہوئی کہ یہ کتاب محفوظ رہے۔ وہ کتاب قرآن مجید ہے۔

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح محفوظ حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ اولاً میں اس کی زبان کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں ہوا؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانیں رفتہ رفتہ بدل جاتی ہیں۔ خود اردو زبان کو لیجئے۔ اب سے پانچ سو سال پہلے کی کتاب مشکل سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا کی ساری زبانوں کا یہی حال ہے انگریزی میں پانچ سو سال پہلے کی مؤلف “چاسیر” (Chaucer) کی کتاب کو آج کل لندن کا کوئی شخص، یونیورسٹی کے فاضل پروفیسروں کے سوا، سمجھ نہیں سکتا۔ یہی حال دوسری قدیم و جدید زبانوں کا ہے۔ یعنی وہ بدل جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ناقابل فہم ہو جاتی ہیں۔ اگر خدا کا آخری پیغام بھی کسی ایسی ہی تبدیل ہونے والی زبان میں آتا تو خدا کی رحمت کا اقتضاء یہ ہوتا کہ ہم بیسویں صدی کے لوگوں کو پھر ایک نئی کتاب دے تاکہ ہم اسے سمجھ سکیں کیونکہ گزشتہ صدیوں کی کتاب اب تک ناقابل فہم ہو چکی ہوتی۔ دنیا کی زبانوں میں سے اگر کسی زبان کو یہ استثناء ہے کہ وہ نہیں بدلتی تو وہ عربی زبان ہے۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عصر عربی یعنی قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو زبان استعمال ہوئی ہے اور جو عربی آج ریڈیو پر آپ سنتے ہیں یا جو آج عربی اخباروں میں پڑھتے ہیں، ان دونوں میں بہ لحاظ مفہوم الفاظ، گرامر (صرف و نحو)، ہجے اور تلفظ، کوئی فرق نہیں ہے۔ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور میں ایک عرب کی حیثیت سے اپنی موجودہ عربی میں آپ سے گفتگو کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہر لفظ سمجھیں گے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب مرحمت فرمائیں تو آپ کا ہر لفظ میں سمجھ سکوں گا۔ کیونکہ ان دونوں زبانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں اس سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ آخری نبی پر بھیجی ہوئی آخری کتاب ایسی زبان میں ہونی چاہیے جو غیر تبدیل پذیر ہو لہٰذا عربی کا انتخاب کیا گیا، عرض کرنا یہ ہے کہ اس عربی زبان میں دیگر خصوصیات مثلاً فصاحت، بلاغت، ترنم وغیرہ کے علاوہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا ہم سب مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ عربی زبان غیر تبدیل پذیر ہے اور اس کے لیے ہمیں عربوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کی بولیوں کو اپنی زبان نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی علمی اور تحریری زبان وہی رکھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلی آ رہی تھی۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے آپ سب واقف ہیں کہ وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا۔ جیساکہ توریت کے متعلق یہودیوں کا بیان کہ اسے خدا نے تختیوں پر لکھ کر ایک ہی مرتبہ دے دیا تھا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید تئیس سال تک جستہ جستہ، (نجماً نجماً) نازل ہوتا رہا اور یہ ان مختلف زمانوں میں نازل شدہ اجزاء کا مجموعہ ہے جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ اس کا آغاز دسمبر سنہ 609ء میں ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے۔ وہاں حضر جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور آپ تک خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ وہ پیغام بہت ہی اثر انگیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک امی ہیں۔ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ اس امی شخص کو جو پہلا حکم دیا گیا وہ ہے “اقراء” یعنی پڑھ اور پھر قلم کی تعریف کی گئی ہے۔ پڑھنے کا حکم دے کر پھر قلم کی تعریف کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ قلم ہی کے ذریعے سے خدا انسا کو وہ چیز بتاتا ہے جو وہ نہیں جانتا دوسرے الفاظ میں قلم ہی وہ چیز ہے جو انسانی تمدن اور انسانی تہذیب کی حفاظت گاہ (Depository) ہے۔ اس کا وجود اس لیے ہے کہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آنے والے اس میں نئی چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا راز یہی ہے اور اسی وجہ سے انسان کو دیگر حیوانات پر تفوق حاصل ہے ورنہ آپ غور کریں گے کہ کوا آج سے بیس لاکھ سال پہلے جس طرح گھونسلا بناتا تھا آج بھی اسی طرح بناتا ہے۔ اس نے کوئی ترقی نہیں کی۔ لیکن انسان و جانور ہے جو چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ آج وہ ساری کائنات پر حکومت کر رہا ہے۔ یہ ساری ترقیاں انسان نے اس لیے کی ہیں کہ اس کو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تجربات کا جو علم حاصل ہوا اس کو محفوظ رکھا اور اس میں اس نے اپنے ذاتی تجربوں سے روز افزوں اضافہ کیا اور اس سے استفادہ کرتا رہا۔ اور یہ سب قلم کی بدولت ممکن ہوا۔ آیت (علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) میں اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے بہت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ جب “سورۃ اقراء” (یعنی سورۃ العلق) کی پہلی پانچ آیاتا نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار کو چھوڑ کر گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ مجھے آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ شاید کسی دن مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دی اور کہا کہ خدا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ضائع نہیں کرے گا۔ ورقہ بن نوفل میرا چچا زاد بھائی ہے جو ان معاملات (یعنی فرشتے، وحی وغیرہ) سے واقف ہے۔ کل صبح جا کر ہم اس سے گفتگو کریں گے، وہ آپ کو بتائے گا۔ میں ان چیزوں سے واقف نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ شیطان کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ایک روایت کے مطابق صبح کو وہ آپ کو اپنے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے ان کے عزیز دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ قصہ سنایا اور کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جا کر ورقہ سے ملاؤ۔ ورقہ بن نوفل بہت بوڑھے تھے۔ ان کی بصارت زائل ہو چکی تھی، مذہباً نصرانی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے اور یہ قصہ سنایا تو ورقہ نے بے ساختہ یہ الفاظ کہے: “اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو چیزیں تم نے ابھی بیان کی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ ناموس موسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہیں”۔ “ناموس” کا لفظ اردو میں عام طور پر عزت کے لیے مستعمل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہوسکتا۔ بعض مفسرین ناموس کے معنی “قابل اعتماد” لکھتے ہیں، وہ بھی یہاں موزوں نہیں ہے۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی ادبیات میں وہ “روح الامین” ہیں مگر یہ معنی بھی یہاں کام نہیں دیتے۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ “ناموس” اصل میں ایک اجنبی لفظ ہے، جو معرب ہو کر عربی زبان میں استعمال ہوا۔ یہ یونانی زبان کا لفظ “ناموس” (Nomos) ہے۔ یونانی زبان میں لفظ توریت کو نوموس یعنی قانون کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ورقہ بن نوفل کا بیان ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت سے مشابہ ہے۔ اور یہی معنی زیادہ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔


( ماخوز از خطبات بہاولپور ، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ )





۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


( ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خوبی آپ کا آسان، عام فہم اور دعوتی انداز بیاں ہے۔ آپ کی تحریروں میں عالمانہ انکسار اور افہام و تفہیم کا جز جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ آپ تحقیق کا نچوڑ اور متقابل قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اپنی راے بیان کر کے قاری کو اپنی راے متعین کرتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انداز جدید دور کے قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق اور طلب علم میں‌گذرا ۔ 17 دسمبر 2002 کو اسلام کا یہ فرزند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فرانس میں‌قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق رہا لیکن شومی قسمت سے وہ جب تک صحت کی خرابی کی وجہ سےامریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ اب جیکسن ول فلارڈا میں‌ہارڈیج گنز فیونرل ہومز میں منوںمٹی کے نیچے آرام فرما ہیں اور آپکا صدقہ جاریہ، کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات دین کے طالبعلموں‌کے لئے زاد راہ ہیں۔

خطبات بہاولپور آپ کے مارچ 1980 میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں‌ دئے جانے والے لیکچرز کی جمع کردہ کتابی شکل ہے۔ ان تیرہ عدد خطبات میں مندرجہ زیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ تاریخ قران مجید، تاریخ حدیث شریف، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ و اجتہاد، قانون بین الممالک، دین عقائد عبادات تصوف، مملکت اور نظم و نسق، نظام دفاع اور غزوات، نظام تعلیم اور سرپرستی علوم، نظام تشریع و عدلیہ، نظام مالیہ و تقویم، تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاو۔ یہ کتاب عام فہم انداز میں تحریر کردہ ہے لیکن موجودہ دور کے کئی پیچیدہ سوالوں کے عام فہم اور با معنی جوابات کے لئے اس کا مطالعہ نہایت اکثیر ہے۔