سورة لُقْمٰن : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : اس سورۃ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول :


اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لئے جبر و ظلم کا آغاز ہوچکا تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفان مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی۔ اس کی نشان دہی آیت ١٤۔ ١٥ سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بےشک خدا کے بعد سب سے بڑھ کر ہیں، لیکن اگر وہ تمہیں اسلام قبول کرنے سے توکیں اور دین شرک کی طرف پلٹنے پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات ہرگز نہ مانو۔ یہی بات سورۃ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن دونوں کے مجموعی انداز بیان اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۃ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا، اور اس کے برعکس سورۃ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ہو رہا تھا۔ 

موضوع و مضمون :


اس سورۃ میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خداوند عالم کی طرف سے پیش کر رہے ہیں، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔ 


اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیار عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔

----------------------------------------
(تفہیم القرآن، سید ابوالاعلی مودودیؒ )