سورة السَّجْدَة : زمانہ نزول، موضوع اور مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : آیت ١٥ میں سجدہ کا جو مضمون آیا ہے اسی کو سورۃ کا عنوان قرار دیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول :


انداز بیاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول مکہ کا دور متوسط ہے، اور اس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیونکہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔ 

موضوع اور مباحث :


سورہ کا موضوع توحید آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تینوں حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سنا رہا ہے۔ کبھی مرنے کے بعد کی خبریں دیتا ہے اور کہتا ہے مٹی میں رل مل جانے کے بعد تم پھر اٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہوگا اور دوزخ ہوگی اور جنت ہوگی کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں، بس اکیلا ایک خدا ہی معبود ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں، میرا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سنا رہا ہے ۔۔ انہی باتوں کا جواب اس سورۃ کا موضوع بحث ہے۔ 


اس جواب میں کفار سے کہا گیا ہے کہ بلا شک و ریب یہ خدا ہی کا کلام ہے اور اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ نبوت کے فیض سے محروم، غفلت میں پڑی ہوئی ایک قوم کو چونکایا جائے۔ اسے تم افتراء کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ اس کا منزَّل من اللہ ہونا ظاہر و باہر ہے۔ 


پھر ان سے فرمایا گیا ہے کہ یہ قرآن جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہے، عقل سے کام لے کر خود سوچو کہ ان میں کیا چیز اچنبھے کی ہے۔ آسمان و زمین کے انتظام کو دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے اور اس نبی کی زبان سے اس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے ؟ یہ نظام کائنات توحید پر دلالت کر رہا ہے یا شرک پر؟ اور اس سارے نظام کو دیکھ کر اور خود اپنی پیدائش پر نگاہ ڈال کر کیا تمہاری عقل یہی گواہی دیتی ہے کہ جس نے اب تمہیں پیدا کر رکھا ہے وہ پھر تمہیں پیدا نہ کرسکے گا ؟


پھر عالم آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات اور کفر کے نتائج و عواقب بیان کر کے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ برا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں اور قرآن کی اس تعلیم کو قبول کرلیں جسے مان کر خود ان کی اپنی ہی عاقبت درست ہوگی ۔


پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں مصیبتیں، آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے۔ ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے، تاکہ اسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔ آدمی اگر ان ابتدائی چوٹوں ہی سے ہوش میں آ جائے تو اس کے حق میں بہتر ہے۔ 


پھر فرمایا کہ دنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے کتاب آئی ہو۔ اس سے پہلے آخر موسیٰ (علیہ السلام ) پر بھی کتاب آئی تھی جسے تم سب لوگ جانتے ہو۔ یہ آخر کونسی ایسی بات ہے کہ اس پر تم لوگ یوں کان کھڑے کر رہے ہو یقین مانو کہ یہ کتاب خدا ہی کی طرف سے آئی ہے اور خوب سمجھ لو کہ اب پھر وہی کچھ ہوگا جو موسیٰ کے عہد میں ہوچکا ہے۔ امامت و پیشوائی اب انہی کو نصیب ہوگی جو اس کتاب الہٰی کو مان لیں گے۔ اسے رد کر دینے والوں کے لیے ناکامی مقدر ہوچکی ہے۔ 


پھر کفار مکہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران میں تم جن پچھلی تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گزرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو، کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو؟ ظاہر سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ آج تم دیکھ رہے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات چند لڑکوں اور چند غلاموں اور غریب لوگوں کے سوا کوئی نہیں سن رہا ہے اور ہر طرف سے ان پر طعن اور ملامت اور پھبتیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس سے تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ چلنے والی بات نہیں ہے، چار دن چلے گی اور پھر ختم ہوجائے گی۔ لیکن یہ تمہاری نظر کا دھوکا ہے، کیا یہ تمہارا رات دن کا مشاہدہ نہیں ہے کہ آج ایک زمین بالکل بےآب و گیا ہ پڑی ہے جسے دیکھ کر گمان تک نہیں ہو تاکہ اس کے پیٹ میں روئیدگی کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، مگر کل ایک ہی بارش میں وہ اس طرح بھبک اٹھتی ہے کہ اس کے چپے چپے سے جو کی طاقتیں پھوٹنی شروع ہوجاتی ہیں ۔


خاتمۂ کلام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمہاری باتیں سن کر مذاق اڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ حضرت، یہ فیصلہ کن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے، ذرا تاریخ تو ارشاد ہو۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمہارے فیصلے کا وقت آ جائے گا اس وقت ماننا تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا۔ ماننا ہے تو اب مان لو، اور آخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو ۔

--------------------------------

(تفہیم القرآن ، سید ابوالاعلی مودودیؒ )