سستی نجات کے مقدس نسخے

آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جو یہود نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہری فریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں۔ 

 (اکاذیب مختلقۃ سمعوھا من علمائہم فنقلوھا علی القلید، البحر المحیط عن ابن عباس ومجاھد والفراء) 

ان قصے کہانیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ جہنم کی آگ یہود کے لیے نہیں ہے۔ ان میں اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ایسی باتیں ملائی گئی تھیں جن سے یہ ثابت ہو کہ بنی اسرائیل اللہ کے خاص بندے ہیں۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس میں ایسے طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں کہ اس کی معمولی معمولی چیزیں بھی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے ور جنت کے باغوں میں پہنچا دینے کے لیے کافی ہیں ۔

سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے کیونکہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔

 چنانچہ جو یہودی علماء بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملہ کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔ 

یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جو لوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پرکسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوں کہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گورا نہیں کرتے۔ کیونکہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کردیتی ہیں ۔



تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ تفسیر آیات 78 تا 82، مولانا وحید الدین خاں )