فرآن ربانی دستر خوان ہے

قرآن کو کچھ لوگ فضائل کی کتاب سمجھتے ہیں ، کچھ لوگ مسائل کی کتاب اور کچھ لوگ سیاست کی کتاب ۔ تینوں باتوں میں جزئی صداقت ہے مگر ان میں سے کوئی بھی قرآن کی صحیح تعبیر نہیں ۔

قرآن کو فضائل کی کتاب ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی آ یتوں اور سورتوں میں طلسماتی برکتیں چھپی ہوئی ہیں ۔ اور قرآن کے محض الفاظ کو دہرا لینا برکتوں کے حصول کے لیے کافی ہے ۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو قرآن کی وہ تمام آیتیں بے معنی ہوجاتی ہیں جن میں آدمی کو غور کرنے پر ابھارا گیا ہے ۔ قرآن ایسی آیتوں سے بھرا ہوا ہے جو آدمی کو اکساتی ہیں کہ وہ الفاظ سے گزر کر معانی کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کرے ۔ وہ قرآن میں تدبر کرے اور قرآنی زاویہ نگاہ سے اپنے آپ کو اور کائنات کو دیکھنے ۔ ان تعلیمات کی روشنی میں دیکھئے تو قرآن کا مقصد ایسے انسان پیدا کرنا ہے جن کی فکری قوتیں بیدار ہوں ، جو قرآن سے ذہنی غذا حاصل کریں اور عبرت کی نگاہ کے ساتھ دنیا میں زندگی گزاریں ۔ ایسی حالت میں قرآن کو فضائل کی کتاب کہنا قرآن کی تصغیر ہے ۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ذہنوں کو کھولنے والی کتاب نہیں ۔ وہ برکت کی کتاب ہے جس کو بند ذہن کے ساتھ پڑھاجائے اور پھر بند غلاف میں محفوظ کر کے رکھ دیا جائے ۔ 

اسی طرح قرآن کو مسائل کی کتاب کہنا بھی قرآن پر ظلم کرنا ۔ "مسائل" کے لفظ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قرآن ایسے اعمال کی کتاب ہے جن کو ظاہری آداب کے ساتھ ادا کرلینا کافی ہے ، حالانکہ قرآن میں اس کے مطلوب اعمال کے ظاہری آداب کا ذکر ہی نہیں ۔ قرآن آدمی کو ایمان کی دعوت دیتا ہے مگر وہ اس ایمان کو ایمان نہیں مانتا جو داخل القلب ایمان نہ ہو، جس میں صحت مخارج کے ساتھ کلمہ ایمان کےالفاظ کو دہرا دیا گیا ہو ۔ قرآن کے نزدیک حقیقی ایمان وہ ہے جو روح میں اتر جائے جس میں آدمی کے دل کی دھڑکنیں شامل ہو جائیں ، قرآن نماز کو فلاح کا ذریعہ بتایا ہے مگر قرآن کی مطلوب نماز وہ ہے جو خشوع کی نماز ہو نہ کہ سہو کی نماز ۔ و الہانہ شیفتگی شامل ہو جو قومی ہیروؤں کے ذکر میں ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ قرآن کے نزدیک قربانی بہت بڑا عمل ہے مگر وہ قربانی نہیں جو گوشت اور خون کے ہم معنی ہو بلکہ وہ قربانی جو آدمی کے لیے تقوی کا ذریعہ بن جائے ۔

اس طرح کے بے شمار احکام ہیں جو بتا تے ہیں کہ قرآن معروف معنوں میں مسائل کی کتاب نہیں بلکہ حقیقت کی کتاب ہے ۔ وہ انسان کے اندر زندہ عمل دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ محض ظاہری آداب و قواعد والا عمل ۔

قرآن میں یقینا بعض سیاسی نوعیت کے احکام ہیں ۔ مگر قرآن کو کتاب سیاست سمجھنا ایساہی ہے جیسے بعض جزئی مشابہت کی بنا پر انسان کو معاشی حیوان سمجھنا ۔ اس نکتہ نظر کے حاملین یہ دیکھتے ہیں کہ نبی آخر الزماں ﷺ کے ذریعہ یہ واقعہ ہوا کہ دعوت و تبلیغ سے شروع ہوکر آپ کا مشن حکومت و سیاست تک پہنچا۔ اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ خدا کے پیغمبر اس لئے آتے ہیں کہ مخصوص احکام کی بنیاد پر خدا کی حکومت قائم کریں۔ مگر قرآن سے یہ ثابت ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے ان کا مشن الگ الگ نہ تھا بلکہ سب کا مشن ایک تھا ۔ حتی کہ قرآن میں پچھلے نبیوں کا ذکر کر کے نبی آخرالزماں سے کہا گیا ہے کہ تم بھی انھیں کی پیروی کرو(فبھداھم اقتدہ) ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ جب نبیوں کا مشن خدائی حکومت قائم کرنا ہو تا ہے تو آخری نبی کے سوا دوسرے نبیوں نے بھی آپ کی طرح حکومت کیوں نہ قائم کی۔

اس نکتہ نظر کے حاملین اس کا جواب دیتے ہیں کہ عمل کی حد تک تمام نبیوں نے خدائی حکومت کے قیام کے لیے جد وجہد کی ۔ البتہ کسی کا عمل کوشش کے مرحلہ میں رہ گیا اور کسی کا عمل آخری نتیجہ تک پہنچا ۔ مگر یہ جواب متعدد وجوہ سے غلط ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت موسی ؑ کو لیجئے ۔ اگر آنجناب کا مشن یہ تھا کہ مصر کے اقتدار سے فرعون کو بے دخل کر کے وہاں خدائی قانون کی حکومت قائم کریں تو ایسا کیوں ہوا کہ جب خدا نے فرعون کو ہلاک کر دیا اور اس کی پوری جنگی طاقت کو سمندر میں غرق کر دیا تو حضرت موسی ؑ مصر چھوڑ کر صحرائے سینا میں چلے گئے ۔ آگر آپ ﷺ کا مشن مصر میں حکومت الہیہ قائم کر نا تھا تو فرعون کی غرقابی کے بعد مصر میں اس کا پورا موقع آپ  کے لیے کھل چکا تھا ۔ ایسی حالت میں مصر کو چھوڑ کر چلے جانے کی کیا توجیہ کی جائے گی ۔


حقیقت یہ ہے کہ قرآن خدائی نعمتوں کا ابدی خزانہ ہے ، قرآن خدا کا تعارف ہے ، قرآن بندے اور خدا کا مقام ملاقات ہے ۔ مگر اس قسم کے مفروضہ خیالات نے قرآن کو لوگوں کے لیے ایک ایسی کتاب بنادیا جو یا تو لفظی مجموعہ ہے جس سے ہر آدمی بس اپنے مخصوص ذہن کے تصدیق حاصل کرلے ۔ وہ اصلا خود اپنے آپ کو پائے اور یہ سمجھ کر خوش ہو کہ اس نے خدا کو پا لیا ہے ۔

(دیباچہ ، تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں )