قرآنی قصص کا اسلوب

قرآن میں کئی تاریخی واقعات اور معجزات کا تذکرہ ہے جن کو علماء نے علمِ تذکیر بایّام اللہ کا نا م دیا ہے، دراصل یہ علمِ تاریخ ہے۔ اس کو اصطلاح میں علمِ قصص بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مذہبی تاریخ ہے جس کو مختصرا قرآن بیان کرتا ہے۔ اس میں حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آخری نبیؐ تک کی اہم قوموں اور پیغمبروں کے احوال و واقعات بیان کیے گئے ہیں۔


ان واقعات کے بیان کرنے کی ایک بڑی غرض انذار اور عبرت آموزی ہے۔ چنانچہ ایک طرف آخری نبی کے مخاطبین کو بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی دعوت نہیں ہے، بلکہ پچھلی دعوتوں ہی کی تجدید اور ان کی تکمیل ہے، تو دوسری طرف منکرین کو خبر دار کیا گیا ہے کہ سنت اللہ کے مطابق ایک دن ان کو بھی اسی انجامِ بد سے دوچار ہونا ہے جس سے ان سے پہلے کی سرکش قومیں دوچار ہو چکی ہیں۔ 

اسی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین و تشفی دی گئی ہے کہ حق و باطل کی اس لڑائی میں حق کو فتح حاصل ہو گی اور باطل سرنگوں ہو گا۔ اس باب میں اللہ کی سنت ناقابلِ تغیر ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:


وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ وَجَآءَ کَ فِی ھٰذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَّ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ. (سورۂ ہود۱۱: ۲۰)


’’اور رسولوں کے احوال میں سے یہ سارے قصے ہم تم سے بیان کرتے ہیں (اور غرض یہ ہے) کہ ان کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو تقویت دیں، (اس کو جمائے رکھیں) اور جو حق بات ان قصّوں میں ہے وہ تم تک پہنچ چکی ہے اور (اس میں) مومنوں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔‘‘


قرآنی قصص کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت اجمال کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، یہاں تک کہ بعض قصّوں میں صرف اشارے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ صرف تین سورتوں، یوسف، کہف، مریم، میں واقعات کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اجمال ہو یا تفصیل، دونوں با مقصد ہیں۔ جہاں اجمال ہے وہاں ہدایت کے نقطۂ نظر سے اجمال ہی مطلوب ہے اور جہاں تفصیل ہے وہاں تذکیر کا پہلو متقاضی تھا کہ اس کو کھول کر بیان کیا جائے۔


تاریخی واقعات کے بیان سے قرآن کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان اس سے یاد دہانی حاصل کریں، جیسا کہ سورۂ ہود کی مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے ’’و ذکریٰ للمومنین‘‘۔ اس سلسلے میں قرآن میں خاص طور اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کے واقعات مکرّر بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان دیکھ لیں کہ ان کی دینی اور دنیوی بربادی کے اسباب کیا تھے۔ مثلاً یہودیوں کے مذہبی افتراق اور فرقہ بندی کے حوالے سے فرمایا گیا ہے:

قرآنی قصص کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں اختلافی امور کو نظر انداز کر کے قصّے کے مرکزی خیال کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ کہف میں اصحابِ کہف اور ان کے کتوں کی تعداد اور غار میں ان کی مدتِ قیام کے بارے میں پہلے سے مختلف رائیں تھیں (آیات ۲۲ تا ۲۵)، اس لیے قرآن نے ان کو مبہم ہی رہنے دیا اور ان غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کر کے قصہ کی اصل روح کو نمایاں کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ نیکو کار بندوں کی مدد کے سلسلے میں خدا کا وعدہ سچا ہے (سورۂ کہف۔ ۲۱)۔ لیکن مفسرین نے حسب عادت اس اختلافی مسئلے میں قیاس آرائی سے گریز نہیں کیا ہے۔

( علوم قرآن ، جاوید احمد غامدی ) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونہ کے طور پر ہم  یہاں اصحاب کھف کا قصہ  جس طرح قرآن نے بیان کیا نقل کرتے ہیں، اس سے اندازہ ہوگا کہ قرآنی قصص کا انداز اسلوب کیا ہے ۔ آسانی کے لیے عربی متن کے بغیر  صرف اردو ترجمہ پیش نظر ہے، ترجمہ تفہیم القرآن ، سید ابوالاعلی مودودیؒ سے ماخوذ ہے ۔  واقعہ ایک تمہید  سے شروع ہو تا ہے، اس میں  نزول قرآن کا مقصد نمایا کیا ،  اس  کے بعد  اہل کتاب پر سخت تنقید کی گئی اور آخر میں  نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے )

 ارشاد باری تعالی ہے :

" تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اِس بات کا نہ اُنھیں کوئی علم ہے اورنہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کےمُنہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔" 

"اچھا، تو اے محمدؐ ،شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخرِ کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔"

                                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 تمہید کے بعد اصل واقعہ کا آغاز ان الفاظ میں  ہے ۔

" کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتبے والے(اصحاب کھف )  ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا:

” اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نوازاور ہمارا معاملہ درُست کردے،“ 

تو ہم نے اُنھیں اُسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلا دیا ، پھر ہم نے اُنھیں اُٹھایا تاکہ دیکھیں اُن کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مُدّتِ قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ 

ہم اِن کا اصل قصہ تم کو سُناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اورہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔  ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبُوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا :



” ہمارا ربّ تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے ۔


 ہم اُسے چھوڑ کر کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکاریں گے۔

 اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔"



” یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دُوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ 


 یہ لوگ ان کے معبُود، ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ 

آخراُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھُوٹ باندھے؟ "



"اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبُودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔


  تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کےلیے سروسامان مہیّا کر دے گا۔“


تم انہیں غار میں دیکھتے  تو تمہیں یُوں نظر آتا کہ سُورج جب نِکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔  یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولیِّ مُرشد نہیں پاسکتے۔ 

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے۔اور ان کا کُتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو اُلٹے پاوٴں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔

اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اُٹھا بٹھایا تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا:

”کہو، کتنی دیر اس حال میں رہے؟ “

 دُوسروں نے کہا:



” شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے۔“


پھروہ بولے:



”اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حال میں گزرا۔


 چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سِکّہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کےلیے لائے۔

 اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ 

اگر کہیں اُن لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبر دستی ہمیں اپنی مِلّت میں واپس لے جائیں گے، 

اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پاسکیں گے“۔



                                                          

                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں اس رد عمل کا ذکر ہے جو  اصحاب کھف کے زندہ ہونے کے بعد  لوگوں  نےکیا ۔ 

ارشاد باری تعالی ہے : 

" اِس طرح ہم نے اہلِ شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آکر رہے گی۔ ﴿مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی﴾ اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ ا کرہے تھے کہ اِن ﴿اصحابِ کھف﴾کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا:

”اِن پر ایک دیوار چُن دو، اِن کا ربّ ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے۔“

مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے (حکمران )  اُنہوں نے کہا:



”ہم تو اِن پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔“



                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




(یہاں سے  اس واقعہ کا اختتام ہے  واقعہ کا اصل مخاطب یعنی محمد ﷺ کو اس کی روشنی میں آخری پیغام دیا ارشاد باری تعالی ہے : )

" کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کُتّا تھا۔ اور کچھ دُوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کُتّا تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کُتّا تھا۔ کہو:



" میرا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے" ۔


 کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پُوچھو۔

اور دیکھو،کسی چیز کے بارےمیں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا۔ ﴿تم کچھ نہیں کر سکتے﴾ اِلّا یہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھُولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے ربّ کو یاد کرو اور کہو: 



” اُمید ہے کہ میرا ربّ اِس معاملےمیں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔“


۔۔۔۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور ﴿کچھ لوگ مدّت کے شمار میں﴾  سال اور بڑھ گئے ہیں۔ تم کہو، 



"اللہ ان کے قیام کی مدّت زیادہ جانتا ہے ،


 آسمانوں اور ز مین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں ، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سُننے والا!

 زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔"

اے نبیؐ ، تمہارے ربّ کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے ﴿جُوں کا تُوں﴾ سُنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، ﴿اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردّو بدل کرو گے تو﴾ اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاوٴ گے۔

اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیّت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟

کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش ِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ 

" یہ حق ہے"  تمہارے ربّ کی طرف سے ، 

اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔ ہم نے ﴿انکار کرنے والے﴾ ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔

  وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھُون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بُری آرام گاہ!

رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنّتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اور اطلس و دیَبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں  پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام!