تفسیر تذکیر القرآن کی خصوصیات

1- تذکیر القرآن کا مقصد قرآن کی یاد دہانی ہے ۔ قرآن کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ نصیحت ہے ۔ تذکیر القرآن کی ترتیب میں سب سے زیادہ اسی پہلو کا لحاظ کیا گیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کے لیے نصیحت بن سکے ۔

2- قرآن عام انسانی کتاب کی طرح ابواب کے انداز میں نہیں ہے ۔ مگر اس کا عام انداز یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ایک پورا پیغام ہے ۔ ایک ایک " پیراگراف" میں ایک ایک بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تذکیر القرآن مین اشی شذراتی انداز کو تشریح کے لیے اختیار کیا گیا ہے ۔ یعنی قرآن کا ایک ٹکڑا یا ایک " پیراگراف " لے کر اس میں جو بات کہی گئی ہے اس کو مسلسل مضمون کی صورت میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ متعلقہ تشریح کو پڑھتے وہئے قاری کے ذہن میں معانی کا سلسلہ نہ ٹوٹے اور وہ قرآن کی تذکیری غذا مسلسل لیتا چلا جائے ۔ 

3- تذکیر القرآن کی ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے قرآن کا زیر تشریح ٹکڑا " پیراگراف" درج کیا گیا ہے ۔ اس کے نیچے اس کا ترجمہ ہے ۔ ترجمہ کے بعد ایک لکیر دے کر متعلقہ ٹکڑے کی تشریح ہے ۔ جہاں تشریح ختم ہو تی ہے وہاں پھر قرآن کا اگلا ٹکڑا درج کرکے دوربارہ مذکورہ ترتیب سے ترجمہ اور تشریح درج ہے ۔ اسی طرح ایک کے بعد ایک پوری سورہ تفسیر ہے ۔ اس ترتیب میں قاری ہر تشریح کو پڑھتے ہوئے بیک وقت اس کا متن بھی سامنے رکھ سکتا ہے اور اسی کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی ۔ 

4- تذکیر القرآن میں یہ حکمت ملحوظ رکھی گئی ہے کہ ہر جزء میں ایک پوری بات آجائے ۔ آدمی اگر ایک صفحہ پڑھے تب بھی قرآنی نصیحت کا کوئی حصہ اسے مل جائے اور زیادہ صفحات پڑھے تب بھی ۔ 

5- تذکیر القرآن میں ترجمہ کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ وہ نہ پوری طرح لفظی او رنہ پوری طرح بامحاورہ ۔ بلکہ درمیان کی ایک صورت اختیار کی گئی ہے۔ دونوں ہی انداز کے اپنے اپنے فائدے ہیں اور درمیانی انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ دونوں پہلوؤں کی رعایت شامل رہے ۔ 

6- تفسیرمیں عام طور پر تفصیل سے پرہیز کیا ہے ، زیادہ تر جو چیز پیش نظر رکھی گئی ہے ، وہ یہ کہ قرآن کی فطری سادگی اس کی تفسیر میں بھی باقی رہے ، قرآن ایک طرف خدا کے جلال کا اظہار ہے اور دوسری طرف وہ انسان کی عبدیت کا آئینہ ہے تفسیر میں بس انھیں اصل پہلوؤں کو غیر فنی انداز میں نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 




جمعہ 13 نومبر 1981 وحید الدین خاں 

(دیباچہ تذکیر القرآن )