مسجد حرام سے کیا مراد ہے ؟ اس سے مراد صرف مسجد ہے یا پورا حرم مکہ ہے ۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ الَّذِیۡ جَعَلۡنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآءَۨ الۡعَاکِفُ فِیۡہِ وَ الۡبَادِ ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ فِیۡہِ بِاِلۡحَادٍۭ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡہُ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿الحج : ۲۵﴾

جن لوگوں نے کُفر کیا 41 اور جو ﴿آج﴾ اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں  جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں  ﴿اُن کی روِش یقیناً سزا کی مستحق ہے﴾۔ اِس ﴿مسجدِ حرام﴾ میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا  اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ 
---------------------------

سید ابوالاعلی مودودیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔ 

" یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائداد نہیں ہے ، بلکہ وقف عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ 

یہاں فقہی نقطہ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہاۓ اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوۓ ہیں : 

اول یہ کہ ’’ مسجد حرام‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف ،مسجد یا پورا حرم مکہ ؟ 
دوم یہ کہ اس میں عاکف (رہنے والے )اور باد (باہر سے آنے والے ) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ 

ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم ، جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے ے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے ، جیسا کہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ : یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احداً طاف بھٰذا البیت او صلی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار۔ ’’ اے اولاد عبد مناف، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہو اسے چاہیے کہ کسی شخص کو راب اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے ‘‘۔ اس راۓ کے حامی کہتے ہیں کہ مسجد حرام سے پورا حرام مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے ، حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صفوان بن امیہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔ 


دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے ، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی ، مُزولفہ، عرفات ، سب مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا : وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَاللہِ ، ’’ مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ (بقرہ۔آیت 217)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالا نہیں بلکہ مکہ سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِ ی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ،’’ یہ رعایت اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ‘‘ (البقرہ۔ آیت 196 )۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہٰذا ’’ مجد حرم‘‘ میں مساوات کو صرف مسجد میں مساوات ک محدود نہیں قرار دیا جا سکتا ، بلکہ یہ حرم مکہ میں مساوات ہے۔ 

پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے ، بلکہ حرم مکہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے۔ یہ سر زمین خدا کی طرف سے وقفِ عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوق ملکیت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ پھر سکتا ہے ، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوۓ کو اٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں۔  مثلاً  عبداللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا نُبَاع رباعھا ولا تؤ اجر بیوتھا ، ’’ مکہ مسافروں کے اترنے کی جگہ ہے ، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کراۓ پر چڑھاۓ جائیں۔‘‘ 

ابراہیم نخعی کی مرسل روایت کہ حضورؐ نے فرمایا : مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھاء ‘‘مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘(واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں ، کیونکہ ان کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبداللہ بن مسعودؓ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں ) مجاہد نے بھی بھی تقریباً ان ہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ 

عَلْقَمہ بن نضْلَہ کی روایت کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں ، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا ‘‘۔ 

عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہل مکہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہاں پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سہیل بن عمرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے۔ 

عبداللہ بن عمرؓ کا قول کہ جو شخص مکہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔ 
عبداللہ بن عباسؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ 

عمر بن عبدالعزیز کا فرمان امیر مکہ کے نام کہ مکے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جاۓ کیونکہ یہ حرام ہے۔ 
ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گۓ ہیں ، اور فقہا میں سے امام مالک ، امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل، اور اسحاق بن رَاھَوَیہ کی بھی یہی راۓ ہے کہ اراضی مکہ کی بیع ، اور کم از کم موسم حج میں مکے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ بیشتر فقہاء کے مکہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت ، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ 

یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اللہ ت عالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہل مکہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکان زمین اور مالکان مکانات خوب کراۓ وصول کر کر کے لوٹیں۔ وہ ایک وقف عام ہے تمام اہل ایمان کے لیے۔ اس کی زمین کسی کی ملک نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پاۓ ٹھیر جاۓ۔

----------------------------
تفہیم القرآن ، جلد سوم ،  سورہ الحج : 25 ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ