قرآن کی غلط تفسیرکرنے والی روایات پر تنقید کا صحیح طریقہ


فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کا یا قرآن کی غلط تفسیرکرنے والی روایات پر تنقید کا صحیح طریقہ یا کسی بھی تفسری روایت کو پرکھ کر دیکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے : 

1- پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ہے جو اسے صحیح یا غلط ثابت کرتی ہے۔ 

2- دوسری چیز نزول قرآن کا زمانہ اس روایت کی موافقت کرتا ہے یا نہیں 

3- تیسری چیز یہ دیکھاجائے کہ قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں ۔ 

اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ کوئی روایت خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو ایسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی جبکہ اس کا متن اس کےغلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ سیاق و سباق ، ترتیب ، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کررہی ہو ۔ 

لیکن سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان کو روایت کرنے والے بعض ثقہ لو گ ہیں پھربھی کس طرح غلط روایات ان کی طرف منسوب ہیں ؟ 

اس کا جواب یہ ہے اس کے اسباب کا سراغ ہمیں کتب احادیث میں مل جاتے ہیں ، جرح و تعدیل کا فن اسی وجہ سے وجود میں آیا ہے اور یہ دیکھنا چاہیے انسان آخر انسان ہے، بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہوجاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ، عقیدت میں بے جا غلو رکھنے والے ان بزگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کرکے ہضم کر جاتے ہیں ۔ 

لیکن افسوس ان بد فطرت لوگوں پر ہے(خاص کر بعض مستشرقین ) جو چھانٹ چھانٹ کر ان ثقہ لوگوں کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان روایات کے ذریعے سے پہنچا ہے اعتبار کے لائق نہیں ۔ بد قسمتی سے ہمارے کچھ نادانوں نے ان سے متاثر ہوکر احادیث کےپورے ذخیرہ کو مشکوک قرار دے دیا ۔ 

اب ان اصولوں کی روشنی میں سورہ حج کی ایک آیت 52، 53  کی تفسیر کا جائزہ  لیتے ہیں ، اور ساتھ اس روایت کا تنقیدی جائرہ لیتے ہیں  جس کی وجہ سے سورۃ الحج کی آیات : 52، 53  کی  تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گۓ ، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑ گئی۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ بعض روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے ، اور  معلوم ہوگا کہ قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ 

 اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی  سُوْرَةُ الْحَجّ  کی آیات 52، 53 کی تفسیر اور اسکی حاشیہ نمبر :101 یہا نقل کی جاتی  ہے ۔  سب سے پہلے آیات کا ترجمہ دیکھیں : 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿ۙ۵۲﴾ لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡقَاسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿ۙ۵۳﴾ وَّ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَیُؤۡمِنُوۡا بِہٖ فَتُخۡبِتَ لَہٗ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۵۴﴾ 

" اور اے محمدؐ ، تم سے پہلےہم نے نہ کوئی رسُول ایسا بھیجا ہے نہ نبی ﴿جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ﴾ جب اُس نے تمنا کی ، شیطان اس کی تمنّا میں خلل انداز ہوگیا۔  اِس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے،  اللہ علیم ہے اور حکیم۔ ﴿وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے ﴾ تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے اُن لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو ﴿ نفاق کا ﴾ روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔۔۔۔ اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے ربّ کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جُھک جائیں، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ " 
 
اس کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں ۔ 

"  یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش ، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے بر حق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے ، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلملاتا۔ 

سلسلہ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جاۓ تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر ہیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکا م ہو گۓ ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہ تھا کہ ایک شخص، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لاۓ، وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صورت حال میں جب لوگ آپ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید مریے ساتھ ہے ، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دیتے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے ، تو انہیں آپ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی ، اور آپ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید ، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں ،اب کیوں نہیں آ جاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جاتے تھے۔ انہی باتوں کو جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رخ کفار کی طرف تھا اور ان آیتوں میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : 

’’کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر اس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جو کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں ، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہو سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔ 

پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں ، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ ان شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوت حق فروغ پاتی ہے ، او محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں ‘‘۔ 
یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں ان آیات سے حاصل ہوا ہے۔

 مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گۓ ، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑ گئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب علم فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کو فرق اچھی سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جاۓ کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے ، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ 

قصہ یہ باین کیا جتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جاۓ جس سے اسلام کے خلاف کفار قریش کی نفرت دور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں۔ یا کم از کم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوۓ آپ پر سورہ نجم نازل ہوئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپ :اَفَرَ اَیْتُمْ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰ ی ہ وَمَنَا ۃَ الثَّالِثَۃ۔الْاُخْریٰ ، پر پہنچے تو یکایک آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوۓ تلک الغرانقۃ العلی ہ وان شفا عتحن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے )۔ اس کے بعد آگے پھر آپ سورہ نم کی آیات پڑھتے چلے گۓ، یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدے میں گر گۓ۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمدؐ سے کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے ، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آۓ اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپ سخت مغموم ہوۓ اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورہ بنی اسرائیل ، رکوع 8 میں ہے کہ : وَاِنْ کَا دُوْ ا لَیَفْتِنُوْ نَکَ عَنِالَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَعَلَیْنَا غَیْرَہٗ ........... ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَ نَصِیْراً ، یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رنجو غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورہ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ادھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرت کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتؐ اور کفار مکہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ واپس آ گۓ۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔ 

یہ قصہ ابن جریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ، ابن سعد نے طبقات میں ، الواحدی نے اسباب النزول میں ، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم، ابن النذِر ،بَذّار، ابن مَردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قُرظی ، عُروہ بن زبیر، ابوصالح، ابولعالیہ، سعید بن جبیر، ضحاک ، ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث، تَتَدہ ، مجاہد ، سُدّی ، ابن شہاب زُہری، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے )۔ یہ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی ت عریف میں جو کلمات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کیے گۓ ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو 15 عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رو سے یہ الفاظ دوران وحی میں شیطان نے آپ پر القا کر دیے اور سمجھے کہ بھی جبریل لاۓ ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیر اثر سہواً آپ کی زبان سے نکل گۓ۔ کسی میں ہے کہ اس وقت آپ کو اونکھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپ کی آواز ملا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔ 

ابن کثیر ، بیہقی، قاضی عیاض، ابن خُزیمہ، قاضی ابو بکر ابن العزی ، امام رازی ، قُطبی، بدر الدین عینی ، شو کافی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’ جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے ، سب مرسل اور منقطع ہیں ، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔’’بیہقی کہتے ہیں کہ ’’ از روئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے ‘‘۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں ے کہا کہ ’’ یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے ‘‘۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ’’اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے ‘‘۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زَمخشرمی جیسے عقلیت پسند مفسیر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ : 

’’ سعید بن جبیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آتی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بذار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حماد ع ناَمَیّہ بن خالد عن شُعْنہ عنا بی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس) اور دو طریقوں سے یہ اگر چہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق معمر بن سلیمان و حماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند عنا بی العالیہ‘‘۔ 

جہاں تک موافقین کا تعلق ہے ، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قومی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوۓ کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں ، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں ، یا جو اب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہوا نہیں رد کر دیں۔ وہ گو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نام ور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین، اور متعدد و معتبر راویان حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جاۓ کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہوا جاتا ہے ؟ اس کے بجاۓ آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جاۓ جب کہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے ؟ 

اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جاۓ تو یہ ناقابل قبول قرار پاتا ہے ، چاہے اس کی سند کتنی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔ 

پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ے جو اسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ واقع ہو چکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکہ واپس آگیا۔اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے : 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب 5 نبوی میں واقع ہوئی، اور مہاجرین حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سن کر تین مہینے بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں ) مکے واپس آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لا محالہ 5 نبوی کا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل پر بطور عتاب نازل ہوئی تھی ، معراج کے بعد اتری ہے ، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رو سے 11 یا 12 نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوۓ کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا ، 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زیر بحث آیت ، جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے 1 ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القاۓ شیطانی سے ہو گئی تھی، اللہ نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔

کیا کوئی صاحب عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد،اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان 9 سال بعد؟ 

پھر اس قصے میں بیان کیا گیا کہ یہ آمیزش سورہ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آ رہے تھے ، یکا یک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پر پہنچ کر آپ نے بطور خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا، اور آگے پھر سورہ نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گۓ۔اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفار مکہ اسے سن کر خوش ہو گۓ اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلہ کلام میں اس الحاقی فقرے کو شامل کر کے تو دیکھیے : 

’’ پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ ) کے لیے ہوں بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے ‘‘۔ 

دیکھیے ،اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر ان پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں ؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصے میں آئیں بیٹیاں َ۔یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کہ شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سن رہا تھا، بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورہ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلاف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سلتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سننے کے بعد یہ پکار اٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا؟ 

یہ تو ہے اس قصے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شان نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے ؟ قصے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورہ نجم میں کی گئی تھی، جو 5 نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورہ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا ، اوور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورہ حج کی زیر بحث آیت میں کی گئی۔ اب لامحالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی سورت پیش آئی ہو گی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتوں ی اس زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا ، یا پھر عتاب والی آیت سورہ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورہ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس ادر عجیب بات ہے کہ دونوں آیتوں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورہ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورہ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتوں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے 6 سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اس بے تکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آۓ ہیں ، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔ 

یہاں پہنچ کر نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے ، عینی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جاۓ کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورہ بنی اسرائیل کا آٹھوں رکوع پڑھ کر دیکھیے ، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے اس سلسلہ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جاۓ (قطع نظر اس سے کہ آیت : اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْ نَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں ، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورہ حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ ’’اے نبی ، 9 سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اس پر گھبراؤ نہیں ، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے ، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسوخ کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے۔ ‘‘

ہم اس سے پہلے بھی بار ہا کہہ چکے ہیں ، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت ، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت میں ابل قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ ،سیاق و سباق ، ترتیب، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصہ قطعی غلط ہے۔ رہا مومن ، تو وہ سے ہر گز نہیں مان سکتا جب کہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا ، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی اپنی خواہش نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے ، یا حضورؐ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آ سکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کے کے کفار کو راضی کیا جاۓ، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے ابرے میں کبھی یہ آرزو کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں ، یا یہ کہ آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لاۓ ہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور ان ثابت شدہ عقائد کے خلاف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس روایت پر ستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرقِ روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور س کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔ 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس شک کو بھی دور کر دیا جاۓ جو راویان حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصے کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ تو نبیؐ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتان حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے ، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں ، اشاعت کیسے پا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخاری ، مسلم، ابو داؤد ، نَسائی اور مُسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گۓ۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اول تو قرآن کا زور کلام اور انتہائی پر تاثیر انداز بیان ، پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا ، اس کو سن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گر گیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہ تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادو گر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوۓ ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب ، ہمارے کانوں نے تو محمدؐ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گۓ۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرین حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے ، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً 33 آدمی مکے میں واپس آ گۓ۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں ، یعنی قریش کا سجدہ اس سجدے کی یہ توجیہ، اور مہاجرین حبشہ کی واپسی، مل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے ولے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کرے ہضم کر جاتے ہیں۔اور بد طینت لوگو چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے ، نذر آتش کر دینے کے لائق ہے۔


-------------------------

( تفہیم القرآن جلد سوم، سورہ حج،52،53 حاشیہ نمبر 101، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )