اس بارے میں سید ابوالاعلی مودوی ؒ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں وضاحت کی ہے ، وہ اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ۔
" رسول " کے معنی ہیں " فرستادہ " بھیجا ہوا " اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد " پیغام بر ، ایلچی اور سفیر کے لیۓ یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور قرآن میں یہ لفظ یا تو ان ملائک کے لیۓ استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے کسی کار خاص پر بھیجے جاتے ہیں " یا پھر ان انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالی نے خلق کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کے لیۓ مامور فرمایا ۔
" نبی " کے معنی ہیں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض ا سکو لفظ " نبا "سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں ، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی " خبر دینے والے " کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک اس کا مادہ نبو ہے، یعنی رفعت اور بلندی اور اس معنی کے لحاظ سے بنی کا مطلب ہے " بلند مرتبہ " اور " عالی مقام " ۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ در اصل نبی ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں ، اور انبیا کو نبی اس لیۓ کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں ۔
پس کسی شخص کو" رسول نبی " کہنے کا مطلب یا تو " عالی مقام پیغمبر " ہے، اللہ تعالی کی طرف سے خبر یں دینے والا پیغمبر " یا پھر " وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے۔"
قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوۓ ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے۔ اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوۓ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے۔ مثلاً سورہ حج ، رکوع 7 میں فرمایا وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی الا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہل تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کا تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ رسول کا لفظ ان جلیل القدر ہستیوں کے لیۓ بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ ا ہم منصب سپرد کیا گیا تھا ۔ اسی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت ابو امامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی ﷺ سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے 313 یا 315 بتائی اور انبیا ء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ 24۔ ہزار بتائی ۔
اگر چہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں ، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔ (1)
----------------------------------------------------------
1- تفہیم القرآن ، سُوْرَةُ مَرْیَم حاشیہ نمبر :30 ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ