وحدت ادیان کا گمراہ کن فلسفہ - مولانا صلاح الدین یوسف

ارشاد باری تعالی ہے : " اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ   وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ( البقرۃ : 62) 

"مسلمان ہوں، یہودی ہوں،  نصاری  ہوں یا صابی  ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ "
وحدت ادیان کا گمراہ کن فلسفہ ۔ مولانا صلاح الدین یوسف 

بعض جدید مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے اور اس سے انہوں نے "وحدت ادیان " کا فلسفہ کشید کرنے کی مذموم کو سعی کی ہے ۔ یعنی رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہوجائے گی۔

 یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہےکہ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟


 اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ 

نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہم۔

اس کی تائید بعض مرسل آثار سے ہوتی ہے مثلا مجاہد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تعالی سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے ان اہل دین کے بارے میں پوچھا جو میرے ساتھی تھے ، عبادت گزار اور نمازی تھے ( یعنی رسالت محمدیہ سے قبل وہ اپنے دین کے پابند تھے ) تو اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ 

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ   وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ( البقرۃ : 62)  ( ابن کثیر ) 

قرآن کریم دوسرے مقامات سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے مثلا ( ان الدین عند اللہ الاسلام  ) (آل عمران : 19)  اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ، (ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ) (آل عمران : 85) 
جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہو گا وہ ہر گز مقبول نہیں ہو سکتی ۔

اور آحادیث میں بھی نبی ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ اب میری رسالت پر ایمان لا ئے بغیر کسی شخص کی نجات ہوسکتی 
 مثلا فرمایا : 

( والذی نفسی بیدی ! لایسمع بی رجل من یذہ الامۃ یھودی و لا نصرانی ثم لا یؤمن بی الا دخل النار ) 

 قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت ادیان کی گمراہی  جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ 

اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔