زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی ۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ

اس بارے میں سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے تفہیم القرآن میں ایک جگہ لکھا ہے کہ "
جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اَینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔
وہاں پیہم ترقی ہو گی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو۔ اور وہاں خلافت الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ مگر ان ترقیات اور ان خدمات کا تصور کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا تو ازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ " یہ قصہ جس طریقے سے یہاں ،(سورہ طہ :116-118) اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں (واللہ اعلم بالصواب) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اسی زمین پر بنائی گئی ہو۔ بہر حال وہاں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کے کھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمہ تھا اور خدمت گار (فرشتے ) اس کے حکم کے تابع تھے۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعاً کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی ، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے۔ مگر اس عہدے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھل جاۓ اور یہ ظاہر ہو جاۓ کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اور خوبیاں کیا۔ چنانچہ امتحان لیا گیا اور جو بات کھلی وہ یہ تھی کہ یہ امید وار تحریص و اطماع کے اثر میں آ کر پھسل جاتا ہے ، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہتا، اور اس کے علم پر نسیان غالب آ جاتا ہے۔ اس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجاۓ آزمائش کے دور میں امیدواروں کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں ، اور اگر بھول لاحق ہوتی ہے ، یا تحریص و اطماع کے اثر پھسلتے ہیں ، تو تنبیہ ، تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے بھی ہیں یا نہیں ؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے ، طاعت کا یا معصیت کا ؟ اس آزمائشی خلافت کے دوران میں ہر ایک کے طرز عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت ، اس دائمی زندگی اور لا زوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی، عطا کی جاۓ گی۔ اس وقت یہ پوری زمین جنت بنا دی جاۓ گی اور اس کے وارث خدا کے وہ صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر ، یا بھول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی۔ "
-----------------
تفہیم القرآن جلد سوم سُوْرَةُ طٰهٰ حاشیہ نمبر :106