رب العالمین ، موسیٰ اور فرعون کا مکالمہ

موسی ؑ اور فرعون کا مکالمہ 

اِنہیں اُس وقت کا قصہ سُناوٴ جب کہ  ربّ نے موسیٰؑ کو پکارا :

 ظالم قوم کے پاس جا ۔۔۔۔ فرعون کی قوم کے پاس ۔۔۔ کیا وہ نہیں ڈرتے؟“

  موسی نے عرض کیا :

” اے میرے ربّ، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھ کو جھُٹلا دیں گے۔ میرا سینہ گھُٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں۔  اور مجھ پر اُن کےہاں ایک جُرم کا الزام بھی ہے ، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔“ 
اللہ تعالی نے  فرمایا :

” ہر گز نہیں، تم دونوں جاوٴ ہماری نشانیاں لے کر  ، ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سُنتے رہیں گے۔ فرعون کے پاس جاوٴ اور اس سے کہو، ہم 
  کو ربّ العٰلمین نے اس لیے بھیجا ہے کہ تُو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے۔“

فرعون نے کہا :

” کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟  تُو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے، اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کہ کر گیا  ، تُو بڑا احسان فراموش آدمی ہے۔

موسیٰؑ نے جواب دیا:

” اُس وقت وہ کام میں نے نا دانستگی میں کر دیا تھا۔  پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے ربّ نے مجھ کو حکم عطا کیا  اور مجھے رسُولوں میں شامل فرما لیا۔ رہا تیرا احسان جو تُو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تُو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا۔“


فرعون نے کہا :

 ” اور یہ ربّ العالمین کیا ہوتا ہے؟“

موسیٰؑ نے جواب دیا:

” آسمانوں اور زمین کا ربّ، اور اُن سب چیزوں کا ربّ جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، اگر تم یقین لانے والے ہو۔“

فرعون نے اپنے گِردوپیش کے لوگوں سے کہا: 

” سُنتے ہو؟

موسیٰؑ نے کہا :

” تمہارا ربّ بھی اور تمہارے اُن آباوٴ اجداد کا ربّ بھی جو گزر چکے ہیں۔“

فرعون نے ﴿حاضرین سے﴾ کہا :

” تمہارے یہ رسُول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔

موسیٰؑ نے کہا :

”مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کا ربّ، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔“

فرعون نے کہا :

” اگر تُو نے میرے سوا کسی اور کو معبُود مانا تو تجھے بھی اُن لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔“

موسیٰؑ نے کہا :

”اگر چہ میں لے آوٴں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی؟“

فرعون نے کہا :

” اچھا تو لے آ اگر تُو سچا ہے۔"

﴿اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی﴾ موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدہا تھا۔  پھر اُس نے اپنا ہاتھ ﴿بغل سے ﴾ کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا۔ ؏   فرعون اپنے گردوپیش کے سرداروں سے بولا :

” یہ شخص یقیناً ایک ماہر جادُوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ 29 اب بتاوٴ تم کیا حکم دیتے ہو؟“

انہوں نے کہا :

” اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر سیانے جادُوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔“

چنانچہ ایک روز مقرر وقت  پر جادُو گر اکٹھے کر لیے گئے اور لوگوں سے کہا گیا:

” تم اجتماع میں چلو گے؟  شاید کہ ہم جادُوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے۔“

جب جادُو گر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا:

”ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے؟“

اس نے کہا :

”ہاں، اور تم تو اس وقت مقربّین میں شامل ہو جاوٴ گے۔“

موسیٰؑ نے کہا :

” پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے۔“

انہوں نے فوراً اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے:

” فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔“

 پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھُوٹے کرشموں کو پڑپ کر تا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادُوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اُٹھے کہ:

 ”مان گئے ہم ربّ العالمین کو۔۔۔۔ موسیٰؑ اور ہارونؑ کے ربّ کو۔“

فرعون نے کہا:

” تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادُو سکھایا ہے۔  اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاوٴں مخالف سمتوں سے کٹواوٴں گا اور تم سب کو سُولی پر چڑھادوں گا۔“

انہوں نے جواب دیا :

”کچھ پروا نہیں، ہم اپنے ربّ کے حضور پہنچ جائیں گے۔ اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا ربّ ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔“  ؏

ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ:

” راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاوٴ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔“

 اس پر فرعون نے ﴿فوجیں جمع کرنے کے لیے﴾ شہروں میں نقیب بھیج دیے ﴿اور کہلا بھیجا﴾ کہ:

” یہ کچھ مُٹھی پھر لوگ ہیں، اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے، اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنّا رہنا ہے۔“

  اِس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے۔ یہ تو ہوا اُن کے ساتھ، اور ﴿دُوسری طرف﴾ بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا۔ صبح ہوتے یہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے۔  جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی چیخ اُٹھے کہ:

” ہم تو پکڑے گئے۔ “

موسیٰؑ نے کہا :

” ہر گز نہیں۔ میرے ساتھ میرا ربّ ہے۔ وہ ضرور میرے رہنمائی فرمائے گا۔“

 ہم نے موسیٰؑ کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ:

” ماراپنا عصا سمندر پر۔“

یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا۔  اُسی جگہ ہم دُوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰؑ اور اُن سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیا ، اور دُوسروں کو غرق کر دیا۔
اس واقعہ میں ایک نشانی ہے  ،مگر اِن لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبر دست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ؏  

(سورہ الشعراء آیات : 10-68)