ہماری کامیاب زندگی کا سب سے بڑا راز

ابوالبشر احمد طیب 

ہماری زندگی دراصل وقت ہی ہے ۔ جس طرح ہماری زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔اسی طرح وقت کا بھی کوئی نعم البدل نہیں۔ وقت کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے او ر نہ ہی فروخت کیا جا سکتا ہے ۔ اسے نہ تو کرایہ پر لے سکتے ہیں اور نہ ہی کرائے پر دے سکتے ہیں ۔ اور نہ ہی مقررہ وقت ( زندگی) سے زیادہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ وقت ہر انسان کی اپنی متا ع ہے ، ہر انسان جو صبح اٹھتا ہے ، چاہے وہ غریب ہو یا امیر ، چھوٹا ہو یا بڑا اسے چوبیس گھنٹے کی فرصت مل جاتی ہے۔ یہ چو بیس گھنٹے اپنے بہترین مفاد میں استعمال کر سکتا ہے ۔ اور ضائع بھی کر سکتا ہے۔ غرض وقت وہ قیمتی سر مایہ ہے ، جو ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکساں عطا ہو ا ہے ۔ جو لوگ اس قیمتی سرمایہ کو کا م میں لا تے ہیں کامیابیوں سے بھر پو زندگی گزار تے ہیں ۔ وقت کے صحیح استعمال سے ایک جاہل عالم بن جا تا ہے ، ایک مفلس مالدار ہوجا تا ہے ۔ ایک گم نام شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جا تا ہے ۔


جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس میں مختلف سورتوں کے آغاز میں وقت کی قسم کھا ئی ہے ۔ جیسے والعصر (زمانہ کی قسم )و الیل (رات کی قسم )، والنہار (دن کی قسم ) ، والفجر (فجر کی قسم) ولیال عشر (دس راتوں کی قسم )، والضحی (چاشت کے وقت کی قسم ) 


مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق میں سے جن کی قسم کھائی، اس سے مقصود انسان کی توجہ ان کی طرف مبذول کر انا ان کی اہمیت کو بیان کر نا ہے ۔جیسے سورۂ عصر میں اللہ تعالی نے زمانہ کی قسم کھائی اور فرما یا کہ انسان بڑے خسارے میں ہیں سوائے ان کے جو ان چار خصوصیا ت کے حامل ہیں : ۱۔ ایمان لا نے والے ۲۔ نیک اعمال کر نے والے ۳ ۔ ایک دوسرے کو حق(دین کی باتوں اور سچائیوں ) کی نصیحت کرنے والے ۴۔ صبر کی تلقین کرنے والے۔ 


ایک بزرگ کا قول ہے کہ میں نے سورۂ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آوازیں لگا رہا تھا کہ ، رحم کر و اس شخص پر جس کا سرما یہ گھلا جا رہا ہے، رحم کر و اس شخص پر جس کا سر ما یہ گھلا جا رہا ہے ۔


دراصل غفلت ہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے ہماری زندگی کاانتہائی قیمتی لمحات ضائع ہو تے ہیں ۔ غافل ایک اندھا ، بہرا انسان کی طرح ہوتا ہے ۔ اس کے پاس ذہن تو ہے پر اس سے کام نہیں لیتا ، آنکھیں تو ہیں پر اس سے دیکھتا نہیں ، کا ن تو ہیں پر ان سے سنتا نہیں ارشاد باری تعالی ہے : 


"ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں ، ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں، پر ان سے سنتے نہیں یہ لوگ (باکل ) جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ۔یہی وہ لو گ ہیں جو غفلت میں پڑے ہو ئے ہیں ۔" (سورہ اعراف:۱۷۹)


قرآن کی اس تعلیم کا معصد یہی ہے کہ انسان غفلت سے دور رہے ۔غفلت ،سستی ، کاہلی غیر انسانی صفات ہیں ۔


قرآن کی مذکورہ تعلیم سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ دنیا کے کامیاب ترین لوگ وہ ہے جو زندگی کےایک ایک لمحہ کی قدر کرتاہے ، اور اس کو بامقصد کاموں میں استعمال کرتاہے ۔اپنے ذہن، کان ، آنکھوں کو درست کاموں میں استعمال کرتاہے ، غفلت سے دور رہتاہے ۔


اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ ایک سال کے کل آٹھ ہزار سا ت سو ساٹھ (8760) گھنٹوں کو آپ نے کہاں کہاں صرف کیا ہے تو ممکن ہے کہ اس میں تقریبا ستر فیصد وقت کا حساب بتادیں جیسے دفتر ، کاربار ،کھا نا پینا ، نیند، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اگر آپ سے کہا جا ئے کہ اس سال کے کل گھنٹوں میں سے آپ نے کتنا وقت با مقصد استعمال کیا تو اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ 


آئیے!بامقصد زندگی گزانے کے لے چند تجا ویز پر عمل کیجئے ۔سب سے پہلے نہایت غور وفکر ،مشاہد ہ و مطالعہ کی مددسے اپنی زندگی کے مقصد(نصب العین) کا شعور حاصل کریں۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل کاموں کی فہرست تیا ر کیجئے ۔


1 ۔ ایک فہرست اپنے اصل،اور با مقصد کا موں کی تیارکیجئے ۔ 2 ۔اور ایک فہرست آپ کے غیر تکمیل شدہ کا موں کی بھی تیارکیجئے۔ 3۔ ایک فہرست ان کا موں کی بھی تیار کیجئے جن کے لئے آپ کا وقت ضائع ہو تا ہے ۔ 


پھرمقصد زندگی کو پیش نظر رکھتے ہو ئے رزانہ کے کا موں کی فہرست تیار کیجئے ۔ ان کا موں میں ترجیحات کا تعین کیجئے اہم اور فوری کا موں کوالک الگ کیجئے۔ ہر کا م کا ٹارگٹ مقرر کیجئے ۔اور اس کی تکمیل کر نے کے لئے ڈیڈلا ئن بھی مقرر کر لیجئے۔ پھر وقفوں کے ساتھ اس فہرستوں کا جا ئزہ بھی لیتے رہیں ، جہا ں ضروری ہو وہاں ترمیم وتبدیلی بھی کیجئے ۔


خلاصہ یہ ہے کہ ہماری کامیاب زندگی کا سب سے بڑا راز یہ کہ ہمارے تما م کام مقر رہ اوقات پر انجا م پائیں ۔ ہم فطرۃ ً آرام پسند ہیں ۔ اس لے خود کو وقت کا پابند بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اہم کا موں کے اوقات جبرا مقر کر لیں ۔جیسا کہ دنیا کے ہر ادارہ میں یہ اصول نظر آتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ملازمین اپنے دوسرے کا موں کے اوقات بھی ان کے خاطر قر بان کر لیتا ہے ۔اس طرح اس کی زندگی باقاعدہ ہو جاتی ہے ۔اور وقت فضول ضائع نہیں ہوتا ،اس لئے اللہ تعالی نے مسلمانوں پر پانچ وقت کی نماز اوقات مقررہ پر فرض کیا ہے ۔ نماز کےاوقات چونکہ مقر ر ہیں اس لئے جو لوگ نماز کے پا بند ہو تے ہیں خصوصا نماز باجماعت کے تو ان کے اوقات خود بخود منظم ہو جاتے ہیں ، ان کے دن رات کے کام باقاعدہ انجام پاتے ہیں اور نماز کے اوقات ان کے کا موں کا معیا ر ہو جا تے ہیں ، وقت پر سونا اور وقت پر جاگنا ان کےلئے ضروری ہو جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری زندگی کو منظم رکھنے کے لے ہماری مختلف عبادات کو وقت کے ساتھ مختص کردیا ۔


گھڑی کی جانب دیکھئے،کس تیزی کے ساتھ وقت گزر رہا ہے اور زندگی کی گھڑی کم ہو رہی ہے ۔