آیت الکرسی کے اسرار اور رموز

آیت الکرسی  کے اسرار اور رموز :
تعارف: یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے۔ حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔  اس میں اللہ تعالیٰ کی مکمل معرفت بیان کی گئی ہے ۔  چونکہ اس میں اللہ کی کرسی کا ذکر ہے اسی نسبت سے  مشہور ہے۔" کرس"  کے معنی عربی لغت میں کسی چیز کی جمی جمائی تہ کے ہیں۔ اس سے کرسی کا لفظ بنا جو بیٹھنے کی جگہ یا چیز مثلاً تخت وغیرہ کے لیے استعمال ہوا۔ بیٹھنے کی جگہ یا چیز جب کہ وہ کسی صاحبِ اقتدار کے لیے خاص ہو اس کے اقتدار کا مرکز ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کرسی کا لفظ اقتدار کی تعبیر کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کے معنی ہوئے کہ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے تمام اطراف و اکناف پر حاوی ہے۔ کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ اقتدار سے الگ نہیں ہے ۔(تدبر قرآن )
خدا کے تصور کے بارے میں انسانوں کے عقائد و نظریات  خواہ کتنے ہی مختلف ہوں لیکن جن سچی حقائق کی بنیاد  پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے وہ یہی ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔

آیت کا مفہوم : یہ  توحید الہی  کی ایک عظیم آیت ہےسب سے پہلے فرمایا کہ اللہ ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے بعد ان صفات کا اثبات کیا جو اللہ  کی الوہیت کا لازمی تقاضا ہیں اور جن کے نہ ماننے سے اس کی الوہیت کی نفی ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی ان باتوں سے اس کو بری قرار دیا جن کے ماننے سے  اس کی الوہیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
جن صفات کا اثبات کیا ہے ان میں سب سے پہلے اس کے حی و قیوم ہونے کا ذکر کیا ہے۔ حَیّ کے معنی زندگہ کے ہیں اور قیوم کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور سب کو قائم رکھنے والی اور سب کو سنبھالنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ جو خود زندہ نہ ہو وہ تمام دنیا جہان کے لیے زندگی بخش کس طرح ہوسکتا ہے اور جو خود اپنی ذات سے قائم نہ ہو وہ آسمان و زمین کو قائم رکھنے والا کس طرح ہوسکتا ہے اور جو ذات ان صفات سے عاری ہو اس کو خدا ماننے کے کیا معنی ؟ اور جب خدا ان صفات سے متصف ہے اور لازماً اس کو ان صفات سے متصف ہونا چاہئے بھی تو پھر کسی کو اس کا شریک و سہیم ماننا ایک بالکل بے جوڑ سی بات ہے۔  اس طرح قرآن نے ان تمام معبودوں کی نفی کردی جو نہ زندہ ہیں، نہ زندگی کا سرچشمہ اور نہ خود قائم ہیں اور نہ دوسروں کے قائم رکھنے والے بلکہ خود اپنی زندگی اور اپنے قیام و بقا کے ایک حیّ و قیوم کے محتاج ہیں ۔
 اس کے بعد فرمایا کہ نہ اس کو اونگھ لاحق ہوتی نہ نیند۔ یہ نیند کی ابتدا اور اس کی انتہا دونوں سے اس کو بری قرار دیا گیا ہے اور یہ اس کے حیّ و قیوم ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نیند، موت کے ظلال و آثار اور اس کے مظاہر و مبادیات میں سے ہے اس وجہ سے یہ خدا کی شان کے منافی ہے۔ پھر یہ اس کے قیوم ہونے کے بھی منافی ہے، جو خود نیند سے مغلوب ہو کر اپنے کو قائم نہ رکھ سکے گا وہ دنیا کو کیا قائم رکھے گا اور جب وہ ہر لمحہ خود بیدار ہے اور اپنی دنیا کی نگرانی کر رہا ہے تو پھر یہ کیوں فرض کیا جائے کہ وہ اس دنیا کے انتظام وانصرام میں کسی اور کا بھی محتاج ہے ۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے اور اسی کے اختیار میں ہے۔  یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے قرآن کے مخاطبوں میں سے نہ کسی کو انکار تھا اور نہ کسی کے لیے اس سے انکار کی گنجائش تھی، اس لیے کہ اس سے انکار کے معنی خدا کی خدائی کے انکار کے تھے۔ چنانچہ اس مسلمہ حقیقت سے شفاعت کے اس عقیدے کے باطل ہونے کی طرف رہنمائی فرمائی جس میں عرب کے مشرکین اور اہل کتاب سب کسی نہ کسی نوعیت سے مبتلا تھے۔
پھر  فرمایا کہ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ، یعنی جب سب کے سب خدا ہی کے مملوک و محکوم اور اسی کے تابعدار و محکوم ہیں تو کس کی مجال ہے کہ خدا کی اجازت کے بغیر اس کے حضور میں کسی کی سفارش کے لیے زبان کھول سکے۔ اس ارشاد نے شفاعت کے اس تصور کا بالکل خاتمہ کردیا جس کی بنیاد اس خیال پر تھی کہ بعض شرکا کو خدا کے ہاں اعتماد اور تدلل کا کا یہ درجہ حاصل ہے کہ وہ کسی کے لیے خود بڑھ کر خدا سے سفارش کرسکتے ہیں اور خدا ان کی ناز برداری میں لازماً ان کی سفارش قبول بھی فرمائے گا۔ فرمایا کہ نہ خدا کے ہاں کسی کا یہ درجہ ہے اور نہ کوئی اس کے دربار میں اس کی اجازت کے بغیر زبان کھولنے کی جرات کرسکے گا۔ اسی حقیقت کو دوسری جگہ اس طرح ظاہر فرمایا ہے وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ (٢٦ ) لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (٢٧ ) اور مشرکین کہتے ہیں کہ خدا کے اولاد ہے، اللہ ان چیزوں سے پاک و برتر ہے فرشتے خدا کی اولاد نہیں بلکہ اس کے باعزت بندے ہیں، وہ اس کے آگے بات کرنے میں سبقت نہیں کرتے وہ بس اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں ۔
 پھر فرمایا کہ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗء، یعنی خدا کے سامنے کسی کے بارے میں زبان کھولنے کی جسارت تو وہ کرے جو خدا کی معلومات میں کچھ اضافہ کرسکتا ہو اور یہ کہنے کی پوزیشن میں ہو کہ فلاں کے بارے میں نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو پوری آگاہی نہیں ہے، اسے ہے۔ لیکن یہ حیثیت کس کی ہے ؟ اللہ تعالیٰ سب کے آگے اور پیچھے اور اس کے ماضی و مستقبل ہر چیز سے باخبر ہے۔ برعکس اس کے دوسرے کسی کا بھی یہ درجہ و مرتبہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصے کا بھی احاطہ کرسکے۔ دوسروں کے لیے اس کے علم میں سے بس اتنا ہی ہے جتنا وہ از خود اپنے بندوں میں سے کسی پر کھول دے۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی یہ وسعت اور دوسروں کے علم کی یہ محدودیت مشرکین کے تصورِ شفاعت کا بالکل خاتہ کردیتی ہے۔ چنانچہ قرآن نے شفاعت کی تردید کرتے ہوئے اکثر مقامات میں علم الٰہی کی اس وسعت اور دوسروں کے علم کی محدودیت کا حوالہ دیا ہے مثلاً يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ : اللہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر ان کے لیے جن کے لیے اللہ پسند فرمائے اور وہ اس کی خشیت سے ڈرتے ہوں گے۔ يَوْمَئِذٍ لا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلا (١٠٩) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (١١٠): اور اس دن کسی کو کسی کی شفاعت کچھ نفع نہ پہنچائے گی مگر جس کے لیے خدائے رحمان اجازت دے اور اس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے، وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے پیچھے اور ان کے آگے ہے اور ان کا علم اس کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔
 شفاعت کا یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے اس لیے کہ یہ بندے کا اعتماد خدا کے بجائے بندے پر جماتی ہے اور اس طرح یہ شرک کی راہ کھولتی ہے۔ اس کے بجائے قرآن نے شفاعت کا یہ تصور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں میں سے جس کو چاہے گا اور جس کے لیے چاہے گا شفاعت کی اجازت دے گا اور وہ خدا سے ڈرتے ہوئے وہی بات زبان سے نکالے گا جو بالکل حق ہوگی۔ یہ شفاعت چونکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوگی نیز اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے، اور یہ نہ تو کسی حق کو باطل بنائے گی اور نہ کسی باطل کو حق بلکہ ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہوگی اس وجہ سے یہ بندے کا اعتماد خدا پر جمانے والی اور توحید کے تقاضوں کے مطابق ہے چنانچہ اس شفاعت کے لیے اس نے گنجائش رکھی ہے اور اس سے وہ اپنے ان بندوں کو نوازے گا جن کو چاہے گا۔
جس طرح شفاعت میں یہ استثنا ہے اسی طرح علم کے باب میں بھی یہ استثنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم میں سے جتنا کسی بندے کے لیے چاہتا ہے، دیتا ہے۔ یعنی خدا کے تمام علم کا احاطہ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے نبیوں، رسولوں اور اس کے فرشتوں کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صرف اتنا ہی ہوتا ہے جتنا وہ کسی کو بخشتا ہے ۔
 آگے ارشاد ہوا وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا یعنی اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے ہر گوشے اور کونے پر حاوی ہے۔ یہ صورت نہیں ہے کہ اس کی وسیع مملکت کے بعض دور دراز گوشے ایسے ہوں جہاں اس کو اپنا قتدار پوری طرح جمانے میں کامیابی نہ ہو رہی ہو اور وہ ان میں اقتدار جمانے کے لیے دوسرے معبودوں کو اپنا شریکِ اقتدار بنانے پر مجبور ہو۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں ہے جو اپنی سلطنت کو سنبھالے رکھنے کے لیے نائبوں اور مددگاروں کے محتاج ہوتے ہیں، ان کے بغیر ان کے لیے حکومت کا انتظام دشوار ہوجاتا ہے بلکہ وہ غیر محدود علم، غیر محدود قدرت اور غیر محدود قوتِ تصرف کا مالک ہے اس لیے جس طرح ہم اپنے مکان کے صحن کی دیکھ بھال کرلیتے ہیں اس سے ہزاروں لاکھوں درجہ سہولت کے ساتھ وہ اپنی اس آسمان و زمین پر حاوی مملکت کا انتظام فرماتا ہے اور ذرا بھی اس کا بوجھ محسوس نہیں کرتا کہ وہ کسی کی طرف سے ہاتھ بٹانے کا محتاج ہو ۔
 آخر میں فرمایا کہ اللہ‘‘ علی ’’ اور‘‘ عظیم ’’ یعنی اس کی ہستی بڑی ہی بلند اور بڑی ہی عظیم ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہو ا کہ  اس کے علم، اس کی قدرت اور اس کی وسعت کو ہم  اپنے محدود پیمانوں سے نہیں ناپ سکتے ، یہیں سے اس کے بارے میں گمراہیاں پیدا ہوتی ہیں اور شرک کی راہیں کھلتی ہیں۔ اپنی صفات کے باب میں جو کچھ وہ خود بتاتا ہے اس پر ایمان  لانا چاہیے  اور ظن و قیاس اور تشبیہ و تمثیل کی خیال آرائیوں سے بچنا چاہیے  ۔ یہ ہے اس آیت کے مضامین کا خلاصہ ۔
اب آئیے! خدا کے بارے میں  انسان کے  گمراہ کن خیالا ت اور عقائد کا بھی جائزہ لیں جن میں وہ  مبتلا رہے ہیں اور اب بھی ہیں ۔
مشرکانہ عقیدہ  : عرب کے قدیم  جاہلی  مذاہب بھی خدا کے  وجود کے قائل تھے  ، البتہ وہ اس معبود اعظم (ہندوؤں کی اصطلاح میں ایشور) کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے  معبودوں اور دیوتاؤں کے بھی قائل رہے ہیں۔ یہ  صرف  اسلام ہی کا تصور خدا ہے  کہ اس ایک خدا کے سوا کسی اور خدا کا سرے سے وجود ہی نہیں، یہ نہیں کہ وہ تو معبود اعظم ہے باقی چھوٹے چھوٹے معبود اور بھی موجود ہیں۔
خدا  کی موت و حیا ت،  نیند ،  اونگ اور تھکان  کا تصور : بحر روم کے ساحل پر متعدد قومیں اس عقیدہ کی گزری ہیں کہ ہر سال فلاں تاریخ پر ان کا خداوفات پاجاتا ہے۔ اور دوسرے دن از سر نووجود میں آجاتا ہے ۔ چنانچہ ہر سال اس تاریخ کو خدایا بعل کا پتلا بنا کر جلایا جاتا تھا اور دوسری صبح اس کے جنم کی خوشی میں رنگ رلیاں شروع ہوجاتی تھیں۔ ہندوؤں کے ہاں اور تاروں کا مرنا اور پھر جنم لینا اسی عقیدہ کی مثالیں ہیں، اور خود مسیحیوں کا بھی  عقیدہ اس سے ملتا جلتا  ہے کہ خدا پہلے تو انسانی شکل اختیار کرکے دنیا میں آتا ہے اور پھر صلیب پر جاکر موت قبول کرلیتا ہے۔ مسیحیوں نے جس طرح اللہ تعالی  کی صفت حیات کے باب میں سخت ٹھوکر کھائی ہے اسی طرح صفت قیومیت سے متعلق بھی عجیب گمراہی میں پڑگئے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جس طرح بیٹا بغیر باپ کی شرکت وآمیزش کے خدا نہیں اسی طرح باپ پر بھی بغیر بیٹے کو شریک کیے خدا کا اطلا ق نہیں ہوسکتا۔ گویا جس طرح نعوذ باللہ مسیح ابن اللہ خدا کے محتاج ہیں اسی طرح خدا بھی اپنی خدائی کے اثبات کے لیے مسیح کا محتاج ہے۔ صفت قیومیت کا اثبات کرکے قرآن نے اسی مسیحی عقیدہ پر ضرب لگائی ہے۔ قیوم وہ ہے جو نہ صرف اپنی ذات سے قائم ہے بلکہ دوسروں کے بھی قیام کا سبب وباعث ہے اور سب کوسنبھالے ہوئے ہے، اس کے سب محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔
جاہلی مذہبوں کے دیوتا نیند سے جھوم بھی جاتے ہیں اور سونے بھی لگتے ہیں اور اسی غفلت کی حالت میں ان سے طرح طرح کی فروگزاشتیں ہوجاتی ہیں۔ مسیحیوں اور یہود کا بھی عقیدہ یہ ہے ۔  اللہ تعالیٰ نے جب چھ روز میں آسمانوں اور زمین کو بنا ڈالا تو ساتویں دن اسے سستانے اور آرام لینے کی ضرورت پڑگئی،  جبکہ اسلام کا خدادائم، بیدار، ہمہ خبردار، غفلت، سستی اور تھکن سب سے ماوراء خدا ہے۔
خدا کے حضور  شفاعت کا تصور  : مسیح  ؑ کی شفاعت کبری مسیحیوں کا ایک  خصوصی عقیدہ  ہے۔ مسیح کے لیے ان کے ہاں بالا استقلال شفاعت ہی ثابت نہیں، بلکہ تخلیق کائنا ت بھی خدا نے (نعوذ باللہ) اپنے اسی فرزند کے واسطہ سے کیا ہے۔ قرآن مجید مسیحیوں سے خطاب کے وقت ان کے مخصوص مرکزی عقائد کفارہ وشفاعت وغیرہ پر برابر ضرب لگاتا جاتا ہے۔ (آیت) ’’ باذنہ‘‘ یہ تصریح بھی بہت ضروری تھی، مسیحیوں نے جہاں نجات کا دارومدار شفاعت پر رکھا ہے وہاں کے برعکس بعض مشرک قوموں نے خدا کو قانون مکافات (ہندی میں کرم) کے ضابطوں سے ایسا جکڑا ہوا سمجھ لیا ہے کہ اس کے لیے معافی کی اور اس کے ہاں شفاعت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے۔ اسلام نے توسط وا عتدال کی شاہراہ اختیار کرکے بتایا کہ نجات کا مدار ہرگز کسی کی شفاعت پر نہیں، البتہ خدا نے اس کی گنجائش رکھی ہے اور اپنی اجازت کے بعد مقبول بندوں کو دوسروں کی شفاعت کا (جو درحقیقت دعا ہی کی ایک صورت ہے) موقع دے گا اور ان کی دعائیں قبول کرے گا اور مقبولین کے سب سے بڑے رئیس وسردار ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ۔

خدائی علم سے شناسائی کا تصور  : حاضر وغائب محسوس ومعقول مدرک وغیر مدرک سب کا علم اسے پورا پورا حاصل ہے ۔ حق تعالیٰ کی صفت علم بھی کامل ہے، سعی وسفارش کا ایک موقع دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ جس حاکم یا مالک کے سامنے مقدمہ درپیش ہواس کا علم محیط وکامل نہیں ہوتا  اس لیے خارجی ذرائع سے اس کے معلومات میں اضافہ کیا جاتا ہے  ۔ جبکہ  اللہ کا علم خود ہر خفی وجلی پر حاوی ہے۔ اس کے علم پر کسی کے اضافہ کرنے اس کے آگے کسی کی خوبیاں بتلانے،  اسے کسی نامعلوم شے پر آگاہ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں۔
بڑے سے بڑے صاحب علم ومعرفت کے بھی بس میں یہ نہیں کہ معلومات الہی میں سے کسی ایک ہی چیز کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہوجائے، محدود لامحدود کے علم کا مقابلہ ہی کیا ۔ بڑے سے بڑا  عالم و عارف بھی  ہو، بہرحال اس کا علم محدود ہوتا ہے اور عین مشیت الہی کے ماتحت ہے  ۔
اقتدار الہی کا تصور : اس کی کرسی علم وقدرت تو خود سارے کائنات پر محیط ہے اس کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے تو آسمان پر، عرش پر، کسی وسیع سے وسیع چیز کے بھی اندر کیسے سماسکتا ہے ؟ وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے، اسے کون گھیرسکتا ہے۔ اس صفت کے اثبات سے ان مشرکوں کے بھی عقیدہ کی تردید ہوگئی جو خدائے تعالیٰ کے مجسم ہونے اور کسی مکان میں اس کے محدودومقید ہونے کے  قائل ہیں۔ کرسی سے مراد علم الہی لی گئی ہے۔ ابن عباس (رض) صحابی سے یہی معنی منقول ہیں، اور متعدد اہل تفسیر نے اس کی پیروی کی ہے۔ کرسیہ ای العلم (ابن جریر۔ عن ابن عباس (رض) قیل مجاز عن العلم (روح) الکرسی ھو العلم (کبیر) اے علمہ ومنہ الکراسۃ لتضمنھا العلم (مدارک) اے وسع علمہ وسمی العلم کرسیا تسمیۃ بمکان الذی بہ کرسی العالم (کشاف)
کرسی کے عام متعارف معنی وہی ہیں جو اردو ہی میں چلے ہوئے ہیں۔ لیکن حق تعالیٰ کے سلسلہ میں کہیں وہ معنی تھوڑے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ کیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ بھی کوئی جسم رکھتا ہے جو وہ اس عام معنی کرسی نشین ہوگا۔ ولا کرسی فی الحقیقۃ ولا قاعد (بیضاوی) کرسی کے اصلی معنی علم ہی کے ہیں اور کراسۃ جو علمی صحیفوں کے آتا ہے وہ اسی اصل سے ماخوذ ہے اور اہل لغت نے کرسی کے جہاں ایک معنی سریر کے کیے ہیں، وہاں دوسرے معنی علم کے کیے ہیں۔ الکرسی السریر والعلم (قاموس) اصل الکرسی العلم ومنہ قیل للصحیفۃ یکون فیھا علم مکتوب کراسۃ (ابن جریر) کرسی کے دوسری معنی قدرت وحکومت کے بھی ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی بہتیرے اہل لغت واہل تفسیر اسی طرف گئے ہیں۔ الکرسی السریر (قاموس) وقیل کرسیۃ ملکہ (راغب) المراد من الکرسی السلطان والقدرۃ والملک (کبیر) قیل کرسیہ ملکہ وسلطانہ والعرب تسمی الملک القدیم کرسیا (معالم) قال قوم کرسیہ قدرتہ التی یمسک السموت والارض (کشاف) ای وسع ملکہ تسمیۃ بمکانہ الذی ھو کرسی الملک (کشاف) غرض یہ کہ اس کی کرسی علم ہو یا کرسی حکومت وہ جمیع کائنا ت کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی چھوٹی، لطیف کثیف، جلی خفی، ہر چیز اس پر عیاں ورشن ہے ۔
مشرک قوموں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ اتنے وسیع اور لق ودق سلسلہ موجودات کی نگرانی تنہا خدا کہاں تک کرسکتا ہے۔ اس لیے نعوذ باللہ وہ کبھی غافل بھی ہوجاتا ہے اور یہ کاروبار سنبھالنے کے لیے اسے ضرورت شریکوں اور مددگاروں کی بھی پڑگئی ہے۔ خود یہود اور مسیحیوں کا عقیدہ خدا کے سستانے اور آرام لینے کے باب میں بھی اسی تخیل کی طرف مشیر ہے۔
 علو الہی و عظمت الہی  کا تصور : علی اور عظیم دو صفتوں کا لانا معنی سے خالی  نہیں  ایک طرف ہر نقص سے ماورا اور ہر عیب سے بالاتر۔ دوسری طرف تمام صفات کمال کا جامع۔ ۔ علوکا حاصل ہے تمام صفات نقص کی نفی، سارے عوارض حدوث سے برتر ی اور عظمت کا حاصل ہے  تمام صفات کمال کا اثبات اور ایسی ذات کا اثبات ،  نہ جس کے مرتبہ کی انتہاہو اور نہ جس کی حقیقت  دریافت ہوسکے۔  گویا  ان  دو صفات کے اندر عظمت وکمال کے سلبی وایجابی پہلوسارے کے سارے آگئے۔ اور ہر اس ضلالت کی تردی ہوگئی جو شرک فی الصفات سے پیدا ہوسکتی ہے ۔

حوالہ جات :
1-  تفسیر ماجدی از مولانا  عبد الماجد دریابادی  
 2- تفہم القرآ ن   از مولانا ابوالاعلی  مودودی
3-   تدبر قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی