کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے: ایک قرآنی مطالعہ

کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے: ایک قرآنی مطالعہ

ڈاکٹر محمد غطریف شہبازندوی 
یہ بات کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے، متعدد مفسرین نے کہی ہے۔ اور یہ انھوں نے آیت کریمہ 'اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' (البقرہ ۲: ۳۰) کی تفسیرکرتے ہوئے کہی ہے۔ آیت کاترجمہ ہے کہ ''میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں''۔ اگرچہ اس میں یہ وضاحت نہیں کہ کس کا خلیفہ، لیکن اردوکے متعددمترجم اس کواللہ کا خلیفہ گردانتے ہیں اور بعض مترجم توآگے بڑھ کرصاف صاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ''میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں''۔ مولانا احمد رضا خاں نے یہی ترجمہ آیت مذکورہ کا کیاہے۔تاہم ان حضرات کے ہاںیہ ایک سادہ ساخیال ہے،وہ اس سے کوئی فکری فلسفہ برآمدنہیں کرتے۔ ہاں اہل تشیع اس خیال سے اپنے مزعومہ ائمہ معصومین کی معصومیت اورعظمت پر استدلال کرتے ہیں۔ موجوددور میں مولانا مودودی اوران کی متابعت میں سید قطب نے دین کی نئی تفہیم وتشریح کی جس کو بہت سے اہل علم نے بجاطورپر دین کی سیاسی تعبیر کہا ہے۔ ۱؂ اس سلسلہ میں مولانامرحوم نے قرآن کی چاربنیادی اصطلاحوں میں الٰہ، دین ،رب اورعبادت کی لغوی تحقیقات کے ذریعہ ان الفاظ کی نئی تشریح کی ہے اوران کواپنے فہم دین کہ ''حکومت الٰہیہ (اقامت دین) ہی انبیا کی بعثت کا بنیادی مقصد ہے''، کا مبنی بنایا ہے۔ اسی سلسلہ میں انھوں نے سورۃ البقرہ کی مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیربھی کی ، جس کے مطابق ہر انسان بالفعل اللہ کا خلیفہ ہے اورجن افراداورقوموں کے پاس اقتدارآجاتاہے وہ اس کے بالقوۃ خلیفہ ہوتے ہیں۔تاہم یہ منصب اہل ایمان کا ہے کہ وہ اس کے خلیفہ بنیں اور استخلاف فی الارض کی ضروری شرائط پوری کریں تبھی ان کوامامت کبریٰ یادنیاکا اقتدارملے گاوغیرہ ۔اس منطق سے فرعون ونمروداورابوجہل اورابولہب بھی خداکے خلیفہ ٹھیرتے ہیں اوران جیسے اورسرکش شیاطین بھی!
مولانا مودودی اور سید قطب کی تبعیت میں جماعت اسلامی اوراخوان المسلمون نے جولٹریچرپیداکیاہے، اس میں بڑی کثرت سے اس بات کودہرایاگیاہے کہ ''انسان اللہ کا خلیفہ ہے ،اس کے سرپر خلافت الٰہیہ کا تاج رکھا گیا ہے'' وغیرہ وغیرہ۔ ان حضرات نے اس کوایک دینی مسلمہ اوراجماعی مسئلہ مان لیاہے ۔اس سلسلہ میں مفسرین کی جو دوسری آرا موجود ہیں، ان کا یہ حضرات بہت سرسری ساذکرکرکے گزرجاتے ہیں۔ مزید برآں ان کے علاوہ اورعلما و مصنفین کی اکثریت بھی شعوری وغیرشعوری طورپراب اس مفروضہ کومانتی ہے ۔اسی پس منظرمیں آیتِ خلافت کے سلسلہ میں چندسطورپیش کی جارہی ہیں۔ ۲؂
مسئلہ اسماء وصفات الٰہیہ کا ہے جوتوقیفی ہیں، ان کے بارے میں اپنے اجتہادسے کوئی دعویٰ کردیناصحیح رویہ نہ ہو گا۔ جتنا بڑا دعویٰ ہوتا ہے، اس کی اتنی ہی بڑی دلیل بھی ہونی چاہیے ۔اس لحاظ سے جب ہم غورکرتے ہیں کہ کیاانسان کے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کی کوئی مضبوط دلیل قرآن یاسنت میں پائی جاتی ہے یانہیں؟ توبڑی حیرت ہوتی ہے کہ نہ قرآن میں ا س دعویٰ کی کوئی دلیل ہے (نص صریح توبالکل نہیں البتہ مذکورہ آیت کا بہت سے مفسرین کا فہم ہے، جو اجتہادی ہوتاہے منصوص نہیں اوراس سے دلائل کی روشنی میں اختلاف کیاجاسکتاہے)اورنہ حدیث میں اس کی کوئی دلیل ہے۔ صحیح حدیث میں تویہ دعابھی آئی ہے: 'اللّٰہم اخلفني في أہلي' ۳؂ (اے اللہ، میرے غائبانہ میں میرے گھر والوں کی نگہبانی فرمانا)۔ اس حدیث سے تومذکورہ تصورخلافت کی جڑہی کٹ جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ توکسی انسان کا خلیفہ ہونے سے رہا۔اس کے علاوہ ''مسنداحمد'' اوردوسری کتابوں میں یہ حدیث بھی آئی ہے کہ کسی نے حضرت ابوبکر کو 'یا خلیفۃ اللّٰہ' کہہ کرپکاراتوآپ نے اس کوناپسندکیااوراس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ: 'لست بخلیفۃ اللّٰہ ولکني خلیفۃ رسول اللّٰہ' ۔ ۴؂
درست ہے کہ اکثرمفسرین اور علما یہ کہتے ہیں کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے ۔تاہم یہ ان حضرات کی اپنی راے ہے۔ اس کے بالمقابل دوسری راے بھی سلف سے منقول ہے اوروہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا خلیفہ نہیں ہے، بلکہ یاتوجنوں کا خلیفہ ہے جوانسان سے پہلے دنیامیں آبادکیے گئے تھے یاایک انسان دوسرے انسان کا اورایک قوم دوسری قوم کی خلیفہ ہے۔ امام ابن تیمیہ نے اپنے ''الفتاویٰ'' میں اس بارے میں بڑاسخت موقف اختیارکیاہے ،وہ کہتے ہیں: 'من جعل لہ خلیفۃ فہومشرک بہ' ۵؂ (مجموعہ الفتاویٰ ۲/ ۵۵۲) ''جو شخص انسان کو اللہ کا خلیفہ مانتا ہے، وہ اس کے ساتھ شرک کرتاہے ۔''
پہلی تنقیح:عربی زبان کے تما م لغات ومعاجم اس پر متفق ہیں کہ خلیفہ وہ ہے جو 'من یخلف غیرہ': کسی دوسرے کے بعدآئے ،اس کی جگہ لے۔(مادہ خ ل ف مادہ سلف کا مقابل ہے)۔ 'خلف ضد القدام مثلًا یعلم ما بین أیدیکم وما خلفکم وخلف ضد تقدم وسلف' ۶؂ یہ بھی واضح رہے کہ عربی زبان کی مخصوص نزاکت اور انفرادیت یہ ہے کہ مادہ (root)کے تمام مشتقات میں اس کی اصل حقیقت کا پایاجاناضروری ہے۔ لہٰذاخلف سے جتنے مشتقات بنیں گے، ان میں اس کا بنیادی مفہوم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہونا چاہیے۔ رات ودن ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں:اسی لیے قرآن ان کو کہتا ہے: 'خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا' ۷؂ 'خَلَف' (لام کے فتحہ کے ساتھ ) عموماً اچھے اور 'خَلْف' (بسکون لام) برے جانشین کے لیے آتے ہیں۔ برے جانشین کے لیے 'خَلْف' کا استعمال قرآن نے کیا ہے۔ 'فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا'۸؂ ۔
دوسری تنقیح: نائب اورجانشین، دونوں اپنے متبادرمعنوں میں ایک نہیں ہیں، بلکہ الگ الگ معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جانشینی میں کسی کے بعدکا یاعدم موجودگی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اور بَعدیت اورعدم موجودگی کا مفہوم جانشینی سے اس طرح لپٹاہواہے کہ اس سے اس کوالگ نہیں کیاجاسکتاہے،کہ اس کے بغیرجانشینی کا تصورہی بے معنی ہے۔اپنی زندگی میں کوئی صاحب امرکسی کواپناجانشین نامزدکرتایامقررکردیتاہے تواس کوولی العہدکہتے ہیں۔اردوکے بعض مفسرین نے بھی اسی معنی میں آدم علیہ السلام کواللہ کا خلیفہ یاولی العہد بتایا ہے۔ ۹؂ جہاں تک نیابت کی بات ہے تواس میں عدم موجودگی یا بَعدیت کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ کسی کی زندگی میں بھی ا س کا نائب ہوسکتاہے اورہوتاہے ،نائب السلطنت،نائب صدر، نائب مدیر وغیرہ اسی لحاظ سے بولے اوراستعمال کیے جاتے ہیں ۔یعنی نیابت جانشینی سے کم درجہ کی چیز ہے ،نیابت میں آدمی اپنے بعض اختیارات نائب کودے دیتاہے، جب کہ جانشینی میں منوب عنہ کے اصل اختیارات جانشین کو مل جاتے ہیں۔ ان دونوں ہی معنوں میں اللہ تعالیٰ پر اس کا اطلاق درست نہ ہو گا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا مودودی، سید قطب اور مولانا امین اصلاحی وغیرہ نے انسان کواللہ کا خلیفہ قراردینے کی توجیہ یہی بیان کی ہے کہ اللہ نے انسان کو آزمانے کے لیے اس کوکچھ اختیارات دیے ہیں۔لیکن یہ حضرات یہ بتانے سے قاصرہیں کہ کون سے خدائی اختیارات انسان کو دیے گئے ہیں۔ظاہرہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپناکوئی اختیارکسی انسان کونہیں دیا،بلکہ شارع تک بھی کسی نبی کو نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے تنہا زمین وآسمان اورپوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ ان کے پورے نظام کووہ تنہا چلا رہا ہے۔ وہی ہوائیں چلاتا ہے ، بارشیں برساتا ہے، روزی دیتاہے، وہی مارتا ہے، جِلاتا ہے، وہی بیماری و شفا دیتا ہے وغیرہ۔ کیا کوئی انسان ان چیزوں میں اللہ کا شریک ہو سکتا ہے! یقیناًاللہ نے کائنات کوانسان کے لیے مسخرکیاہے اور کائنات کی بہت ساری اشیا انسان کی خدمت کرتی ہیں۔اورانسان اپنی قوت عقلی سے کام لے کر ان کو مسخر کرتا چلا جا رہا ہے۔ دراصل ان حضرات کواسی تسخیرکائنات اورانسان کی متمدن زندگی اورانسان کی زندگی کے امورکی تنظیم سے اشتباہ لگا ہے، حالاں کہ امورزندگی کی تنظیم کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی کو اپنا خلیفہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس کے لیے صرف عقل سے کام لینااورتمدن کا شعورہوناکافی ہے جوانسان کے اندربدرجۂ اتم پایاجاتاہے ۔
تیسری تنقیح: اب لفظ 'خلیفہ' پر غور کیجیے ۔اس کے اصل اورمتبادر معنی جانشین کے ہیں، نائب کے معنوں میں اس کا استعمال کم ہوتا ہے۔ البتہ یہ ضرورہے کہ مجازاًخلیفہ کونائب کے معنی میں بھی استعمال کرلیاجاتاہے۔امام ابوجعفرطبری اور راغب اصفہانی اوران کی متابعت میں بہت سارے مفسرین نے نائب کے معنی لیے ضرورہیں،مگرامام ابو جعفر طبری یا راغب اصفہانی لغت، قرآن وحدیث سے اس کی کوئی دلیل نہیں دیتے، بلکہ اپنے قیاس سے یہ کہتے ہیں کہ انسان کو خلیفۃ اللہ اس کی تشریف واعزازکے لیے کہاگیاہے۔راغب اصفہانی کہتے ہیں: ۱۰؂ 'والخلافۃ النیابۃ عن الغیر إما لغیبۃ المنوب عنہ وإما لموتہ وإما لعجزہ وإما لتشریف المستخلف وعلی ہذا الوجہ الأخیر استخلف اللّٰہ أولیاء ہ في الأرض، قال تعالٰی: ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ فِی الْاَرْضِ'۔ خلافت غیرکی نیابت کو کہتے ہیں، یا تو اس وجہ سے کہ منوب عنہ غائب ہے یامرگیاہے یاوہ عاجز ہوگیاہے اوریاجس کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے، اس کوعزت دینا مقصود ہے، اور اسی آخری معنی میں اللہ نے زمین میں اپنے اولیا کوخلیفہ بنایاہے جیساکہ فرمایا: اسی نے تم کوزمین میں جانشین بنایا۔
عام معنوں میں نیابت یہ ہے کہ بادشاہ ،صاحب امر یا ذمہ داریاعام آدمی بھی اپنے کام میں کسی دوسرے کو اپنا نائب، وکیل یامختاربنادے اپنے اختیارات اورمناصب میں سے کچھ اسے تفویض کردے ۔اورجانشینی یہ ہے کہ جانشین کواپنے منوب عنہ کے اختیارات مل جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں مخلوق کے مابین تومتصوراورمعمول بہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں توان کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔سوال یہ ہے کہ کیاآدم یابنی آدم کوولی عہدمقررکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ (نعوذباللہ )کہیں چلاگیاکہ آدم یابنی آدم اب اس کے جانشین ہوگئے؟ یااللہ نے انسان کو''اپناکوئی عہدہ یااختیار'' دے دیاہے کہ انسان کواس کا نائب کہاجاسکے؟اس لحاظ سے یہاں خلیفہ کے معنی جانشین یانائب، دونوں ہی لینا عقلاً محال اور غلط ہے۔کسی منطق کے زورپر اسے ثابت نہیں کیاجاسکتا۔کوئی کہہ سکتاہے کہ انسان کواللہ کا خلیفہ بتانے والے یہ معنی مرادنہیں لیتے جوآپ بتارہے ہیں،میں کہوں گاکہ ممکن ہے کہ واقعی میں ایساہی ہو،تاہم جب کسی کو کسی کاجانشین یانائب قراردیں گے تواس کا متبادرمفہوم یہی نکلے گاجس سے ہم نے اوپربحث کی ہے۔ انسانی ذہن سب سے پہلے متبادرمعنی ومفہوم ہی کی طرف دوڑتا ہے۔ توپھراللہ تعالیٰ کے لیے ایسے الفاظ و اصطلاحات بولے ہی کیوں جائیں جن سے اشتباہ پیداہوتاہو؟
انسانوں کواللہ کا خلیفہ ماننے کی بات اتنی سادہ ہے بھی نہیں،بلکہ اس کی فلسفیانہ اساس اگرڈھونڈی جائے تواس کے ڈانڈے تصوف کی اس روایت میں مل جاتے ہیں جس کے مطابق انسان اپنی صورت وحقیقت میں خداکی ذا ت کا پرتو ہے، بلکہ بعض توصاف صاف کہتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے وجودکا ہی ایک ٹکڑاہے (معاذ اللہ) اور بالآخر اسی میں مل جائے گا۔مختلف فلسفوں میں اس فکرکوحلول اوراتحادسے تعبیرکیاجاتاہے ۔وجودی فلسفۂ تصوف جس کو بہت سے صوفیا تصوف کے مغزاورروح سے تعبیرکرتے ہیں،اس کے سِوا اور کیا ہے؟ ۱۱؂
انسان اللہ کاخلیفہ ہے، اس تصورکوپھیلانے میں بھی سب سے زیادہ ہاتھ متصوفین ہی کارہاہے۔
کوئی کہہ سکتاہے کہ اکثرمفسرین مذکورہ آیت کریمہ کا یہی معنی لیتے آرہے ہیں۔میں عرض کروں گاکہ یقیناًایسا ہی ہے، لیکن ضروری تونہیں جوچیز مشہورہوجائے، وہ صحیح ہواورواقع کے مطابق بھی ۔کتنے ہی مشہورواقعات اسرائیلی روایات یاضعیف حدیثوں کی وجہ سے مشہورہوگئے ہیں اورآج تحقیق سے ان کا غلط ہوناثابت ہوچکاہے۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھرانسان کی حیثیت دنیامیں کیاہے۔ خاک سارعرض کرے گاکہ قرآن وسنت سے یہی معلوم ہوتاہے کہ انسان اللہ کی مخلوق ہے، اس کا عبدہے اوراس کا عبدہوناہی معراج انسانیت ہے ۔اللہ نے اُسے بہت اہتما م سے پیدا فرمایا جس کو: 'خَلَقْتُ بِیَدَیَّ'۱۲؂ سے تعبیر فرمایا، اسے عقل وشعوردیا،علم الاسماء سے نوازا اور فرشتوں کا مسجود بنایا۔ اسے نیکی و بدی کے راستے دکھائے: 'وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ' (البلد ۹۰: ۱۰)، اللہ نے اپنی بہت سی مخلوقات پر اُسے شرف و عظمت دی ہے۔ فرمایا: 'وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ... وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً' ۱۳؂ لیکن انسان کو عقل و شعور اور آزادی عمل جودی گئی ہے یاکائنات کی بہت سی اشیا اس کے لیے مسخرکی گئی ہیںیااورنعمتیں انسان کو دی گئی ہیں، وہ بربناے نیابت الٰہیہ نہیں، بربناے امتحان دی گئی ہیں: 'لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً'۔ ۱۴؂ اس لحاظ سے انسان کی حیثیت خلیفۃ اللہ کی نہیں محکوم ومامورکی ہے ۔اللہ کے احکام کے مطابق ہی اس کواپنے معاملات دنیاکی تنظیم کرنی چاہیے ۔تاہم یہ تنظیمِ امریاحکومت خلافت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے، کیونکہ تنظیم امر اور انسان کی انسان پرحکومت کو بربناے خلافت مان لیاجائے توایسی حکومت و تنظیم امور تو دوسری مخلوقات میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثلاًچیونٹیوں میں دقیق تنظیمِ امرپائی جاتی ہے توکیاان کوبھی اللہ کا خلیفہ ماناجائے گا؟
اب ہمیں دیکھناہے کہ یہ نظریہ جوبہت سارے مفسرین کرام اورعلما نے اختیارکیاہے کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے، کیا خود قرآن و حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتاہے یانہیں ۔صحیح یاغلط اس نظریہ کا ماخذبالعموم آیت کریمہ: 'اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' (البقرہ ۲: ۳۰) کو بنایا جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ مدنی ہے، اس سے قبل بھی مکی آیتوں میں اس لفظ کا یااس کے مشتقات کا تذکرہ آ چکا ہے۔ چونکہ تفسیرکا مسلمہ اصول ہے کہ 'القرآن یفسر بعضہ بعضًا' (قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیرکرتاہے) تمام مفسرین مانتے ہیں کہ قرآن کا مفہوم متعین کرنے کا سب سے اشرف ترین ذریعہ قرآن ہے۔ ابن کثیرلکھتے ہیں: 'فإن قال قائل: فما أحسن طرق التفسیر؟ فالجواب: إن أصح الطریق في ذلک أن یفسر القرآن بالقرآن فما أجمل في مکان فإنہ بسطہ في موضوع آخر'۔ ۱۵؂
لہٰذا مذکورہ ارشاد الٰہی کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے ان مکی سورتوں کوسامنے رکھناضروری ہے جن میں خلافت یا استخلاف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔اوران کا سیاق وسباق خودبتادے رہاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس کس کوخلیفہ بنایااورکس کس کابنایا۔ یہ آیات کل ۱۲ ہیں اور سورۂ نورکی آیت استخلاف کوچھوڑکرباقی سب مکی سورتوں میں آئی ہیں۔ واضح رہے کہ خلف اوراس کے مشتقات کا استعمال درج ذیل آیتوں کے علاوہ بھی متعددمقامات پر ہواہے۔ان آیات کے ترجمے ہم نے قصداً انھی مترجمین ومفسرین کے لیے ہیں جوانسان کواللہ کا خلیفہ مانتے ہیں،تاہم ذیل کی آیات میں کوئی بھی خلیفہ،خلافت اوراستخلاف کا ترجمہ اس نظریہ کے تحت نہیں کرتا، بلکہ سب یہی بات کہتے ہیں کہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کواس کی جانشین بنادیا۔ملاحظہ ہو:
۱۔ حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: 'وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ م بَعْدِ عَادٍ' (الاعراف مکیہ ۷:۷۴) ''اوروہ وقت یادکروکہ خدانے تمھیں قوم عادکے بعداُس کا جانشین بنایا'' (ترجمہ ابوالکلام آزاد)۔ 'خلفاء' 'خلیفہ' کی جمع ہے۔
۲۔ حضرت ہودعلیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں: 'وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ' (الاعراف مکیہ ۷: ۶۹) ''خداکا یہ احسان یادکروکہ اپنی قوم نوح کے بعدتمھیں اس کا جانشین بنایا''(ترجمہ ابوالکلام آزاد)۔
۳۔ایک اورجگہ ہودعلیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: 'وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ' (ہودمکیہ۱۱: ۵۷) ''مجھے تویہ نظرآرہاہے کہ میراپروردگارکسی دوسرے گروہ کوتمھاری جگہ دے دے گا''(ترجمۂ مذکور)۔
۴۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان کی تکذیب کی ،اس پر عذاب آیا،اس بارے میں فرمایا: 'فَنَجَّیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓئِفَ' (یونس مکیہ۱۰: ۷۳) ''پس ہم نے اُسے (نوح کو) اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں سوارتھے (طوفان) سے بچایااورغرق شدہ قوم کا جانشین بنایا'' (ترجمۂ مذکور)۔
۵۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کوآگاہ کرتے ہوئے کہاکہ 'عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ' (الاعراف مکیہ۷: ۱۲۹) ''قریب ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے دشمن کوہلاک کردے اورتمھیں ملک میں اس کا جانشین بنائے پھردیکھے (اس جانشینی کے بعد)تمھارے کا م کیسے ہوتے ہیں'' (ترجمۂ مذکور)۔
۶۔ عہدنبوی کے لوگوں سے خطاب ہوا: 'ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓءِفَ فِی الْاَرْضِ' (فاطر مکیہ ۳۵: ۳۹) ''وہی ہے جس نے تم کوزمین میںآباد کیا'' (ترجمۂ مولانامحمدجوناگڑھی)۔ ''وہی ہے جس نے تم کوزمین میں قائم مقام کیا'' (ترجمہ شیخ الہند)۔ حاشیہ میں مولاناشبیراحمدعثمانی نے وضاحت کی ہے: یعنی اگلی امتوں کی جگہ تم کوزمین میں آباد کیا اور ان کے بعدریاست دی ۔
۷۔ 'وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ' (النمل مکیہ ۲۷: ۶۲) ''اور کرتا ہے تم کونائب اگلوں کا زمین پر'' (ترجمہ شیخ الہند)۔
۸۔ 'وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ' (الانعام مکیہ۶: ۱۶۵) ''اور وہی ہے جس نے تمھیں (ایک دوسرے کا) زمین میں جانشین بنایا''(ترجمۂ آزاد )۔
۹۔ 'ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَآٰئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ م بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ' (یونس مکیہ۱۰: ۱۴) ''پھر ان امتوں کے بعدہم نے تمھیں ان کا جانشین بنایاتاکہ دیکھیں کہ تمھارے کام کیسے ہوتے ہیں'' (ترجمۂ مذکور)۔
۱۰۔ 'اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآءُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ' (الانعام مکیہ ۶: ۱۳۳) ''اگر وہ چاہے توتمھیں ہٹا دے اورتمھارے بعدجس گروہ کوچاہے تمھاراجانشین بنادے جس طرح ایک دوسرے گروہ کی نسل سے تمھیں اٹھاکھڑاکیاہے''۔
۱۱۔ 'وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ' (النور مدنی ۲۴: ۵۵)۔ مولاناآزادنے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے: ''جولوگ تم میں ایمان لائے ہیں اور ان کے عمل بھی اچھے ہیں ان سے اللہ کا وعدہ پوراہواکہ زمین کی خلافت (یعنی اقتدار)انھیں عطافرمائے گا اُسی طرح جس طرح ان لوگوں کودے چکاہے جوان سے پہلے گزرچکے ہیں''۔ مولاناصلاح الدین یوسف نے اس آیت کی تفسیرمیں استخلاف سے مرادوہ غلبہ واقتدارلیاہے جوخلافت راشدہ کے زمانہ اورمابعدمیں مسلمانوں کودوسری قوموں پر ملاہے (ملاحظہ ہو:ترجمہ مولانامحمدجوناگڑھی وتفسیرصلاح الدین یوسف شائع کردہ سعودی عرب ) ۔
۱۲۔ یہ توقوموں کی بات ہوئی کہ ایک قوم یاگروہ کے بعدکسی دوسری قوم یاگروہ نے اُس کی جگہ لی ۔اس کے علاوہ مخصوص اشخاص وافرادکا جہاں تک تعلق ہے توغالباًقرآن میں صرف حضرت داؤدعلیہ السلام کے بارے میں واضح طورپر آیاہے کہ ان کو''زمین میں خلافت دی گئی'' فرمایا: 'یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ' (ص مکیہ ۳۸: ۲۶)۔
واضح رہے کہ لفظ 'خلیفہ' بعینہٖ قرآن میں انھی دو جگہوں میں آیاہے، ایک سورۂ بقرہ میں اورایک یہاں، یعنی سورۂ ص میں۔ یہاں سوال یہ ہوگاکہ حضرت داؤدکوکس کا خلیفہ بنایاگیاتوعلامہ شوکانی نے اس کا جواب یہ دیا ہے: أي وقلنا لہ (یاداؤد إنا) استخلفناک علی الأرض أوجعلناک خلیفۃ لمن بعدک من الأنبیاء لتأمر بالمعروف وتنہی عن المنکر ۱۶؂ ۔ یعنی ہم نے ان سے کہاکہ اے داؤد، ہم نے تم کوزمین پرخلافت دی یایہ مطلب ہے کہ ہم نے تم کوتم سے پہلے کے انبیا کا خلیفہ بنایاامربالمعروف ونہی عن المنکرکے لیے۔
یہ بارہ آیتیں ہیں جوخلیفہ ،خلافت واستخلاف کے قرآنی استعمالات کی نظیرہیں۔ان کے علاوہ بھی قرآن وحدیث میں بعض اور جگہوں پر بھی اس لفظ کااستعمال ہواہے، تاہم کہیں بھی مروجہ مفہوم مرادنہیں لیاگیا،اسی طرح ان میں سے کسی بھی آیت میں یہ نہیں کہاگیاہے کہ فلاں قوم یافلاں گروہ یافلاں فردکواللہ تعالیٰ نے ''اپناجانشین یاخلیفہ مقرر کیا ہے''۔ ان آیتوں سے بالکل واضح ہے کہ زمین میں جانشین کردینے کا مطلب ہے: ''کسی قوم یافردکوکسی پہلی اورسابق قوم کی جگہ آبادکردینایاکسی پہلی قوم یاسابق گروہ سے اقتدار لے کردوسری قوم کودے دینا''۔ لہٰذا آیت: 'اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' میں بھی زمین کی خلافت سے مرادیہی جانشینی ہونی چاہیے اورزمین کے حوالہ سے خلافت یا جانشینی کا یہی مفہوم قرین قیاس لگتاہے، کیونکہ قرآن میں زمین کی خلافت کا ہی ذکرہے عرش کی خلافت کا نہیں، اگرعرش کی خلافت کا ذکرہوتاتورائج ''خلافت الٰہیہ ''کے مفہوم کی گنجایش نکل سکتی تھی ۔
مذکورہ بارہ آیات کریمہ کی روشنی میں ہی سورۂ بقرہ (مدنیہ )کی آیت خلافت 'وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَآٰءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' کا مفہوم سمجھاجاسکتاہے، چنانچہ کئی مفسرین کرام نے بھی یہی معنی لیاہے ،امام ابن کثیر کہتے ہیں:
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً أي قومًا یخلف بعضہم بعضًا قرنًا بعد قرن وجیلًا بعد جیل کما قال تعالٰی (ھو الذی جعلکم خلائف الارض) وقال (ویجعلکم خلفاء (الارض)) وقال (ویجعلکم خلفاء الارض وقال ولو نشاء لجعلنا منکم ملائکۃ فی الارض یخلفون) وقال (فخلف من بعدھم خلف). ۱۷؂
''میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والاہوں، یعنی ایسے لوگوں کوآبادکرنے والاہوں جوایک کے بعدایک اورنسل در نسل ایک دوسرے کی جگہ لیں گے ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''وہی ہے جس نے تم کوزمین پر اگلوں کا خلیفہ بنایا'' اور فرمایا: ''اور وہ تم کوزمین پر اگلوں کا نائب بناتاہے'' اور فرمایا: ''اور اگرہم چاہتے توتم میں فرشتے بنادیتے جو پہلوں کی جگہ لیتے'' اور فرمایا: ''ان کے بعدوہ لوگ آئے جوناخلف ثابت ہوئے''۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ابن کثیرکی اپنی راے تویہی ہے۔اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعدانھوں نے اس مسئلہ میں دوسرے مفسرین کی آرا اس سرخی کے ساتھ بیان کی ہیں: 'ذکر أقوال المفسرین ببسط ما ذکرناہ'۔ اس میں ابن جریرطبری کا وہ قول بھی ہے جس میں انھوں نے انسان کواللہ کا خلیفہ قراردینے والی راے کا ذکر کیا ہے۔ متاخرین میں علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی نے بھی اپنی گراں قدر تفسیر ''مفتاح القرآن'' میں اس آیت کریمہ کی یہی توضیح فرمائی ہے۔واضح رہے کہ علامہ کی تفسیرکی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے تفسیری روایات کی روایتاً و درایتاً تحقیق و تنقیدکی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَآٰءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' : ''اور اے نبی یہ واقعہ سن کہ تیرے رب نے جب فرشتوں سے فرمایاکہ میں زمین میں خلیفہ، یعنی جانشینی کے ساتھ آبادرہنے والی مخلوق کی حیثیت سے رکھنے والا ہوں''۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے طے کرلیاہے کہ نوع انسانی نسل درنسل زمین میں آبادرہے گی۔ یہاں 'جَاعِلٌ' کے معنی ہیں: رکھنے والا، 'جعل' کا رکھنے کے معنی میں استعمال معروف ہے ۔چنانچہ سورۂ یوسف میں ہے 'جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ' (یوسف نے اپنے بھائی کے اسباب میں جام شاہی رکھ دیا) اور بقرینۂ سیاق یہاں 'جَاعِلٌ' کا مفعول اول، یعنی الانسان مقدرہے۔۔۔۔ نفیس لغوی بحث اورقرآنی شواہدکے ذکرکرنے کے بعدآگے فرماتے ہیں: ''انسان، بشر، آدمی کی طرح خلیفہ بھی نوع بنی آدم کا لقب ہے ۔یہ لفظ اس نوع کی ایک خاص اورامتیازی صفت کو ظاہر کرتا ہے، وہ یہ کہ روئے زمین پر جتنی بھی مخلوقات محسوسہ پائی جاتی ہیں، ان میں صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جو جانشینی کے تسلسل کے ساتھ یہاں آباد ہے اور قیامت تک رہے گی۔ یہ جانشینی، یعنی پچھلوں کا اگلوں کی جگہ آباد اور متاخرین کا متقدمین کے مقام کولیتے رہناافرادکے لحاظ سے بھی ہے، دین ومذہب میں بھی ہے اورعلم وہنرمیں بھی، رنگ ڈھنگ میں بھی ہے اوراخلاق وعادات میں بھی'' وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مزیدفرماتے ہیں: ''صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جونسل ونسب کے بعیدترین رشتوں کوبھی ملحوظ رکھتی ہے ۔اخلاف اپنے اسلاف کی مادی املاک کے بھی وارث ہوتے ہیں اوراکثران کے معنوی اوصاف کے بھی حامل بنتے ہیں پس انسان ہی وہ مخلوق ہے جس میں خلافت و توارث اورجانشینی کا طریقہ فطری طورپر پایاجاتاہے ۔قرآن کریم میں اسی معنی کے لحاظ سے انسان کو 'خلیفہ' اور انسانوں کو 'خلائف' اور 'خلفاء' کہاگیاہے ۔لیکن شروع سے آخرتک قرآن کریم میں انسان کوخلیفۃاللہ نہیں کہاگیاحتیٰ کہ کسی نبی کے لیے بھی یہ لفظ نہیں آیا۔ داؤد علیہ السلام کے متعلق یہ ارشاد ہوا ہے: 'یا داؤد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض' (اے داؤد علیہ السلام ہم نے تجھے اس سرزمین میں خلیفہ بنایا ہے)، یعنی سلطنت میں طالوت کا اورنبوت میں حضرت شمویل علیہ السلام کا جانشین ۔اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ ''اے داؤدہم نے تجھے اپناخلیفہ بنایاہے۔''جن مترجمین نے یہ ترجمہ کیاہے غلط کیاہے۔ اس میں 'اپنا'کا لفظ بالکل غلط اضافہ ہے۔ اسی طرح یہاں 'اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے کہ میں زمین میں اپنانائب بنانے والا ہوں۔ ہاں اگر 'خلیفتي'یا 'خلیفۃ لي' ہوتا تو یہ ترجمہ صحیح قرار دیا جاتا'' (تفسیرمفتاح القرآن ،جلداول صفحہ ۱۱۰، علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی طبع مکتبہ ازہریہ میرٹھ)۔ ابن کثیرنے بھی اپنی تفسیرمیں خلیفہ کا یہی مفہوم صحیح قراردیاہے ۔حضرت حسن بصری سے بھی امام طبری نے یہی قول نقل کیاہے ۔وہ فرماتے ہیں: 'خلیفۃ: الذین یخلف بعضہم بعضًا'۔ ۱۸؂
مولانا محمد جوناگڑھی نے اس آیت: 'اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً' کا ترجمہ یوں کیا ہے: ''اورجب تیرے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں'' ۔۔۔ اس کی تفسیرمیں مولاناصلاح الدین یوسف یوں فرماتے ہیں: ۱۹؂ ''خلیفہ سے مرادایسی قوم ہے جوایک دوسرے کے بعدآئے گی اوریہ کہناکہ انسان اس دنیامیں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اورنائب ہے غلط ہے''۔ تقریباً اسی سے ملتا جلتا مفہوم مفسر موصوف نے سورۂ یونس میں آئے فقرہ 'خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ' (۱۴) کا بیان کیا ہے۔ ''خلائف، خلیفہ کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں گذشتہ امتوں کا جانشین یا ایک دوسرے کا جانشین'' ص ۶۴۔ راقم سطوراپنے محدودمطالعہ اوراپنی علمی بے بضاعتی کے اعتراف کے باوجودیہ کہنے میں کوئی حر ج نہیں سمجھتا کہ خلیفہ اورخلافت کے سلسلہ میں مذکورہ بالاتین مفسرین کرام کا مفہوم ہی بے غبار اور قرآن و سنت سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتاہے۔ خلیفہ وخلافت کے سلسلہ میں مروجہ مفہوم روح شریعت سے بعیدمعلوم ہوتا ہے، کیونکہ کتاب وسنت میں اس کی کوئی منصوص دلیل نہیں،جوکچھ بھی ہے، وہ مفسرین کا اپنااستدلال اور استنباط ہے۔ اوراس کی حیثیت بس ایک اجتہادی راے کی ہوگی ۔اس کوامت کی اجماعی راے بتانادرست نہ ہو گا۔
_____
۱؂ مولاناعلی میاں ندوی، ''عصر حاضر میں دین کی نئی تشریح پر ایک نظر'' (عربی ترجمہ التفسیرالسیاسی للاسلام)؛ مولانا محمد منظور نعمانی، ''مولانامودوی کے ساتھ میری رفاقت اوراب میرا موقف''؛ مولانا وحید الدین خاں، ''تعبیر کی غلطی''؛ شیخ محمدسلیمان القائد، ''الخطأ فی التفسیر'' اور مولانا سلطان احمداصلاحی، ''مسئلہ حاکمیت الٰہ کا تنقیدی جائزہ''۔ نیز جناب جاویداحمدغامدی صاحب نے بھی اپنی کئی نگارشات میں اس پر روشنی ڈالی ہے، مثلاً ملاحظہ ہو ''مقامات'': شائع کردہ الموردلاہورپاکستان۔
۲؂ پروفیسر صبیح الدین انصاری نے اپنی دوکتابوں: ۱۔ ''کیاانسان اللہ کا خلیفہ ہے'' ۲۔ ''مولانامودودی کا تصورخلافت، تفہیم القرآن اور تفہیمات'' کے خصوصی حوالہ سے(مکتبہ الفوزان بٹلاہاؤس جامعہ نگر نئی دہلی ) میں تفصیل سے مولانامودودی کے تصورخلافت کا ناقدانہ جائزہ لیاہے)۔ نیزپروفیسرالطاف احمداعظمی نے اپنی ناقدانہ کتاب: ''احیاء دین اورتین دینی جماعتیں'' میں تفصیل سے اس تصورپرنقدکیاہے۔
۳؂ یہ ٹکڑااس لمبی دعاکا حصہ ہے جوطائف کے دعوتی سفرسے واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔(تہذیب سیرۃ ابن ہشام ۹۷) اس کے علاوہ ایک نبوی دعا ان الفاظ میں آئی ہے: 'اللّٰہم أنت الصاحب في السفر والخلیفۃ في الأہل'، (صحیح مسلم) 'اللّٰہم أنت الصاحب في السفر والخلیفۃ في الأہل اللّٰہم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أہلنا' (الفتاویٰ الکبریٰ، ابن تیمیہ ۲/ ۵۵۲)۔
۴؂ 'عن أبي ملیکہ أن رجلًا قال لأبي بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ: یا خلیفۃ اللّٰہ، فقال: أناخلیفۃ محمد ﷺ وأناراض بذالک'۔ اس کے علاوہ حضرت عمربن عبدالعزیز کا اسی طرح کا ایک واقعہ پروفیسرمحمدصبیح الدین انصاری نے اپنی کتاب میں نقل کیاہے،ملاحظہ ہو: کیاانسان اللہ کا خلیفہ ہے ص۸۷۔
۵؂ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،الفتاویٰ الکبریٰ، ۲/ ۵۵۳۔
۶؂ ص ۱۵۵ ،المفردات فی غریب القرآن للراغب الاصفہانی دارالمعرفہ بیروت۔
۷؂ الفرقان ۲۵: ۶۲۔
۸؂ مریم ۱۹: ۵۹۔
۹؂ ملاحظہ ہوتفسیرعثمانی برترجمہ شیخ الہندحاشیہ نمبر۵شائع کردہ سعودی عرب، البقرہ ۲: ۲۰۔
۱۰؂ المفردات فی غریب القرآن للراغب الاصفہانی دارالمعرفہ ص ۱۵۶۔
۱۱؂ دیکھیے: ''وحدت الوجودایک غیراسلامی نظریہ'' ،پروفیسر الطاف احمد اعظمی۔
۱۲؂ ملاحظہ ہو سورۂ ص ۳۸: ۷۵۔اس کے علاوہ تکریم بنی آدم کا ذکربنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں بھی کیا گیا ہے: 'وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ... وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً'۔
۱۳؂ بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰۔
۱۴؂ الملک ۶۷: ۲۔
۱۵؂ تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،الجزء الاول، مکتبہ التجاریۃ مصر، ص۳۔
۱۶؂ فتح القدیرفی تفسیرالقرآن العزیز، المجلدالرابع، مکتبہ المعارف، الریاض، ص ۴۲۹۔
۱۷؂ تفسیرالقرآن العظیم ابن کثیرصفحہ ۶۹طبع المکتبۃ التجاریہ الکبریٰ مصر۔
۱۸؂ طبری بحوالہ تفسیرمفتاح القرآن جلداول صفحہ ۱۱۰۔
۱۹؂ ملاحظہ ہو:صفحہ ۱۷ ترجمہ وتفسیرمولاناجوناگڑھی شائع کردہ شاہ فہدقرآن کریم کمپلیکس۔
____________