بسم اللہ الرحمن الرحیم:
’’ اللہ‘‘:۔ اللہ کا نام لفظ ’’ اِلٰہ‘‘ پر الف لام تعریف داخل کر کے بنا ہے۔ یہ نام ابتداء سے صرف اس خدائے برتر کے لیے خاص رہا ہے جو آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ نزول قرآن سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی اس کا یہی مفہوم تھا۔ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود اپنے دیوتاؤں میں سے کسی کو بھی خدا کے برابر قرار نہیں دیتے تھے۔ ان کو اس بات کا اقرار تھا کہ آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی نے سورج اور چاند بنائے ہیں، اسی نے ان کو مسخر کیا ہے اور وہی پانی برسانے والا اور روزی دینے والا ہے۔ دوسرے دیوتاؤں کی پرستش وہ محض اس غلط گمان کی بنا پر کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں اور اس کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے یہ خیالات نہایت تفصیل کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہم اختصا کے خیال سے یہاں صرف دو تین آیتیں نقل کرتے ہیں۔ ’’ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى‘‘ (زمر :3) (ہم نہیں پوجتے ان کو مگر اس لیے کہ یہ اللہ سے ہم کو قریب کریں)۔ ’’ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۔ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم۔ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ‘‘ (عنکبوت :61-63): (اگر تم ان سے پوچھو کس نے بنایا آسمانوں اور زمین کو اور مسخر کیا سورج اور چاند کو ؟ کہیں گے، اللہ نے۔ پھر کہا ان کی عقل الٹ جاتی ہے ! اللہ ہی روزی میں وسعت دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور تنگ کردیتا ہے اس کے لیے۔ اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ اور اگر ان سے پوچھو کس نے اتارا بادل سے پانی، پھر زندہ کی اس سے زمین اس کے خشک ہونے کے بعد، کہیں گے، اللہ نے)۔ اسی طرح تمام قوتوں اور قابلیتوں، تمام زندگی اور موت اور کائنات کے تمام انتظام و انصرام کا حقیقی منبع اور مرکز بھی وہ اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ ’’ قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ‘‘ (یونس :31): (ان سے پوچھو تم کو کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون اختیار رکھتا ہے تمہارے سمع و بصر پر اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون سارے معاملہ کا انتظام کرتا ہے ؟ جواب دیں گے، اللہ، پھر پوچھو تو اس اللہ سے ڈرتے نہیں ؟ ) ۔
رَحمَان ، رَحِیم :۔ اسم رحمان، غَضْبَان اور سَکْرَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اور اسم رحیم، علیم اور کریم کے وزن پر صفت کا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ رحیم‘ کے مقابل میں ’ رحمان‘ میں زیادہ مبالغہ ہے اس وجہ سے ’ رحمان‘ کے بعد ’ رحیم‘ کا لفظ ان کے خیال میں ایک زائد لفظ ہے جس کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی لیکن یہ تاکید مزید کے طور پر آگیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے فَعْلان کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور فعیل کا وزن دوام واستمرار اور پائیداری و استواری پر۔ اس وجہ سے ان دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی برائے بیت نہیں ہے بلکہ ان میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اس کے دوام و تسلسل کو، غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ خدا کی رحمت اس خلق پر ہے بھی اسی نوعیت۔ اس میں جوش ہی جوش نہیں ہے، بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا پیدا تو کر ڈالی ہو لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا ہو بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوسکتی جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اس کو ظاہر نہ کریں ۔
’’ حمد‘‘ حمد کا ترجمہ عام طور پر قرآن مجید کے مترجموں نے تعریف کیا ہے۔ لیکن میں نے اس کا ترجمہ شکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ اس ترکیب کے ساتھ استعمال ہوا ہے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے جس مفہوم کو ہم شکر کے لفظ سے ادا کرتے ہیں مثلاً ’’ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا‘‘ (اعراف :43): (انہوں نے کہا شکر کا سزا وار ہے اللہ جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی)۔ ’’ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن‘‘ (یونس :10): (اور ان کی آخری صدا یہ ہوگی کہ شکر ہے اللہ کے لیے جو عالم کا رب ہے)۔ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰق‘‘ (ابراہیم :39): (شکر ہے اللہ کے لیے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمعیل اور اسحق عطا فرمائے)۔ استعمالات کے لحاظ سے اگرچہ ’’ حمد‘‘ کا لفظ شکر کے مقابلہ میں زیادہ وسیع ہے، شکر کا لفظ کسی کی صرف انہی خوبیوں اور انہی کمالات کے اعتراف کے موقع پر بولا جاتا ہے جن کا فیض آدمی کو خود پہنچ رہا ہو۔ برعکس اس کے حمد ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کے اعتراف کے لیے عام ہے، خواہ ان کا کوئی فیض خود حمد کرنے والے کی ذات کو پہنچ رہا ہو یا نہ پہنچ رہا ہو، تاہم شکر کا مفہوم اس لفظ کا جزو غالب ہے۔ اس وجہ سے اس کے ترجمہ کا پورا پورا حق ادا کرنے کے لیے یا تو تعریف کے لفظ کے ساتھ شکر کا لفظ بھی ملانا ہوگا۔ یا پھر شکر کے لفظ سے اس کو تعبیر کرنا زیادہ مناسب رہے گا تاکہ یہ سورۃ جس احساس شکر اور جس جذبۂ سپاس کی تعبیر ہے اس کا پورا پورا اظہار ہوسکے۔ یہ اظہار صرف تعریف کے لفظ سے اچھی طرح نہیں ہوتا۔ آدمی تعریف کسی بھی اچھی چیز کی کرسکتا ہے اگرچہ اس کی اپنی ذات سے اس کا کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہو، لیکن یہ سورۃ ہماری فطرت کے جس جوش کا مظہر ہے وہ جوش ابھرا ہی ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و رحمانیت کے ان مشاہدات سے جن کا تعلق براہ راست ہماری ذات سے ہے۔ اگر یہ اچھی طرح واضح نہ ہوسکے تو اس سورۃ کی جو اصل روح ہے وہ واضح نہ ہوسکے گی۔ شکر کے لفظ سے سورۃ کا یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
’’ رَبّ‘‘:۔ رب کے معنی پرورش کرنے والے اور مالک و آقا کے آتے ہیں۔ یہ دوسرا مفہوم اگرچہ پہلے مفہوم ہی سے اس کے ایک لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوا ہے کیونکہ جو ذات پرورش کرنے والی ہے اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک اور آقا بنے۔ لیکن یہ مفہوم اس لفظ پر ایسا غالب ہوچکا ہے کہ اس سے الگ ہو کر محض پرورش کرنے والے کے لیے اس کا استعمال باقی نہیں رہا۔ قرآن مجید کے مخاطبِ اول کائنات کا خالق ، تو ۔۔۔ تنہا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن رب انہوں نے اور بھی بنا رکھے تھے جن کی نسبت ان کا گمان تھا کہ خدا نے کائنات کے انتظام میں ان کو اپنا شریک بنا رکھا ہے، اس وجہ سے یہ عبادت و اطاعت کے حقدار ہیں۔ یہاں اللہ کے بعد اس کی پہلی ہی صفت رب العالمین بیان ہوئی جس سے مقصود اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ جو اللہ کائنات کا خالق ہے، وہی اس کا مالک بھی ہے کیونکہ وہی سب کی پرورش کرنے والا ہے ۔