قرآنی الفاظ کی تحقیق و تشریح : سورہ فاتحہ: دین اور عبادت

دین : مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ:  دین کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ 1: مذہب و شریعت کے معنی لیے مثلاً ’’ اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ‘‘ (آل عمران :83): (کیا خدا کے اتارے ہوئے مذہب کے سوا وہ کسی اور مذہب کے طالب ہیں)۔ 2: قانونِ ملکی کے لیے مثلاً ’’ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ‘‘ (یوسف :76)۔ (اس کو بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو روک سکے)۔ 3: اطاعت کے معنی کے لیے مثلاً ’’ وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا‘‘ (نحل :52)۔ (اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے)۔ 4۔ جزا کے معنی کے لیے مثلاً ’’ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۔ وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ‘‘ (ذاریات :6) (جس چیز کی تمہیں دھمکی سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے اور جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی)۔ جزا سے مراد اس کے دونوں پہلو میں نیک اعمال کا صلہ بھی اور برے کاموں کی سزا بھی۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمہ میں جزا کے ساتھ سزا کا لفظ بھی بڑھا دیا ہے۔ جزا و سزا کے دن کا تنہا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز سارا زور اور سارا اختیار اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے سبب عاجز و سرفگندہ ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے۔ سارے معاملات کا فیصلہ تنہا وہی کرے گا جس کو چاہے گا سزا دے گا، جس کو چاہے گا انعام دے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے ’’ اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَهُم‘‘ (حج :56) (اس دن سارا اختیار اللہ ہی کو ہوگا، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا)۔ ’’ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ‘‘ (غافر :16) (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟ صرف خدائے واحد و قہار کی)۔ اس آیت کے تین لفظوں مین جو بات پوشیدہ ہے وہ اگر پھیلا دی جائے تو پوری بات یوں ہوگی کہ ایک دن جزا اور سزا کا آنے والا ہے۔ اس دن سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہوگا اور اس کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہوگی، لیکن کلام کے دعائیہ اسلوب میں یہ بات اس طرح لپیت دی گئی ہے کہ دعا کرنے والا ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت سے ان سب باتوں کا اعتراف کر جاتا ہے۔ گویا خدا کی ربوبیت و رحمت اور اس کے عدل و انصاف کے ان آثار و دلائل کے بعد جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ایک ہٹ دھرم کے سوا کون ہے، جو اس حقیقت کے کسی جزو کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرسکے ۔

عبادت :’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ‘‘: عبادت کے اصلی معنی عربی لغت میں انتہائی خضوع اور انتہائی عاجزی وفروتنی کے اظہار کے ہیں۔ لیکن قرآن میں یہ لفظ اس خضوع و خشوع کی تعبیر کے لیے خاص ہوگیا ہے جو بندہ اپنے خالق و مالک کے لیے ظاہر کرتا ہے۔ پھر اطاعت کا مفہوم بھی اس لفظ کے لوازم میں داخل ہوگیا ہے کیونکہ یہ بات بالبداہت غلط معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس ذات کو اپنے انتہائی خضوع و خشوع کا واحد مستحق سمجھے زندگی کے معاملات میں اس کی اطاعت کو لازم نہ جانے۔ چنانچہ عبادت کی اس حقیقت کو قرآن مجید نے بعض جگہ کھول بھی دیا ہے۔ مثلاً ’’ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ‘‘ (زمر :2) ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ تو اللہ ہی کی بندگی کرو اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے۔ عبادت کے ساتھ اطاعت کا یہ تعلق اس قدر گہرا ہے کہ بعض جگہ یہ لفظ صاف صاف اطاعت کے مفہوم ہی کے لیے استعمال ہوگیا ہے مثلاً : ’’ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ‘‘ (یس :60) کہ شیطان کی عبادت نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جو حق بندوں پر ہے اس آیت میں وہ بھی بیان ہوگیا ہے اور بندے کا جو حق خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کیا ہے وہ بھی اس میں بیان ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق بندے پر یہ ہے کہ بندہ تنہا اسی کی بندگی کرے اور اسی سے التجا کرے۔ بندے کا حق اس نے اپنے اوپر یہ بتایا ہے کہ وہ اس پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے۔ آیت کے پہلے ٹکڑے میں بندہ اس حق کا اقرار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اس کے اوپر ہے اور اس کے دوسرے ٹکڑے میں اس حق کے لیے درخواست پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر بندے کا بتایا ہے اپنے اعتماد اور اپنی تمنا کا اظہار کردیتا ہے کیونکہ بندے کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اپنے رب سے التجا اور درخواست کرے نہ کہ اس پر اپنا کوئی حق جتائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ بغیر کسی استحقاق کے بندے کو سب کچھ بخشتا ہے اور پھر اس فضل و کرم کو بندہ کا حق قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اس سورۃ سے متعلق جو مشہور حدیث قدسی ہے اس میں خاص اس ٹکڑے سے متعلق حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ جب بندہ ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ‘‘ کے الفاظ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑا میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ دیا جو اس نے مانگا۔ ’’ ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ کے الفاظ عام ہیں۔ اس وجہ سے یہ طلبِ مدد خاص عبادت کے معاملہ میں بھی ہو سکتی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی۔ عبادت میں بندہ خدا کی مدد کا محتاج توفیق و رہنمائی اور ثبات و استقامت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ عبادت بالخصوص جب کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی اطاعت پر بھی مشتمل ہو ایک بڑی ہی آزمائش کی چیز ہے۔ اس میں ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جہاں بڑے بڑوں کے پائے ثبات بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ اس جملہ میں مفعول کی تقدیم نے حصر کا مضمون بھی پیدا کردیا ہے۔ یعنی عبادت بھی صرف خدا ہی کی اور استعانت بھی تنہا اسی سے۔ اس حصر نے شرک کے تمام علائق کا یک قلم خاتمہ کردیا کیونکہ اس اعتراف کے بعد بندہ کے پاس کسی غیر اللہ کو نہ کچھ دینے کو رہا اور نہ اس سے کچھ مانگنے کی گنجائش باقی رہی۔ اس کے بعد دوسروں سے بندے کے تعلق کی صرف وہی نوعیت جائز رہ گئی ہے جو خود اللہ تعالی نے ہی قائم کردی ہو ۔

(تدبر قرآن جلد اول ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ )