جذبہ شکر دین کی بنیاد ہے :۔ مولانا امین احسن اصلاحی

جذبہ شکر دین کی بنیاد ہے :۔

 ربوبیت، رحمت اور عدل کی ان نشانیوں کے مشاہدہ سے اللہ تعالیٰ کے لیے شکر کا جو بے پایاں جذبہ پیدا ہوتا ہے، یہی جذبہ ہے جو بندہ کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کرے اور اپنی ہر مشکل میں اسی سے مدد مانگے۔ غور کیجیے تو صاف واضح ہوگا کہ جس طرح یہ جذبہ رحمت و ربوبیت کی نشانیوں کے مشاہدہ کا ایک فطری نتیجہ ہے اسی طرح اس جذبہ سے سرشار ہو کر بندہ کا خدا کی طرف اس کی عبادت کے لیے بڑھنا بھی اس جذبہ کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ انسان کا ہر جذبہ اپنا ایک قدرتی رد عمل رکھتا ہے۔ اس جذبہ کا، جو اپنے منعم حقیقی کی شکر گزاری کے لیے انسان کے اندر ابھرتا ہے، قدرتی رد عمل یہ ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے اور اور اسی سے مدد مانگے، جو ذات اس فیاضی اور اس اہتمام کے ساتھ پرورش کر رہی ہے، جس کی یہ پروردگاری نہ اس کی طرف سے کسی غرض پر مبنی ہے اور نہ ہماری طرف سے کسی استحقاق پر بلکہ تمام تر اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا فیضان عام ہے، پھر جس کی ربوبیت اور رحمانیت صرف اسی حیاتِ چند روزہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زندگی کے بعد بھی اپنے نیک بندوں کے لیے اس نے ابدی زندگی کی مسرتیں محفوظ کر رکھی ہیں، اس کے سوا کون ہے جو انسان کی حقیقی شکرگزاری کا مستحق ہوسکے۔ اور اگر وہی ہمارے حقیقی شکر کا سزاوار ہے تو پھر اس کے سوا کون ہے جو اس بات کا حق دار ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس سے مدد مانگیں ؟ اس طرح شکر کا جذبہ گویا دھکیل کر بندے کو اس کے منعم حقیقی کے دروازے پر ڈال دیتا ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے اور اسی سے طالب مدد ہو۔ اس حقیقت کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ درحقیقت شکر کے جذبہ سے بندہ کے اندر خدا کی عبادت کا داعیہ ابھرتا ہے اور پھر اسی جذبہ اور اسی کے قدرتی رد عمل سے دین کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اس کائنات میں اور خود اپنے وجود کے اندر خدا کی ربوبیت اور اس کی رحمت کے بے شمار آثار دیکھ کر انسان کے اندر اپنے منعم حقیقی کے لیے شکر کا جذبہ اور اس جذبہ کی تحریک سے انسان کے اندر اس کی عبادت کرنے کا ولولہ پیدا ہونا ایک ایسی بات ہے جو ہر پہلو سے بالکل ایک فطری اور بدیہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس حقیقت کا انکار کرسکے۔ لیکن مذہب دشمنی کے اندھے جوش میں فلسفہ جدید کے مدعیوں نے دین کے آغاز سے متعلق اس سے بالکل مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک اور خوفناک حوادث کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا جن کو اس نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اور اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔ ہم اس غلط نظریہ کی تردید اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری تفصیل کے ساتھ کرچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ہماری کتاب "حقیقت شرک و توحید" حصہ دوم) یہاں ہم صرف اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ مذہب کے آغاز سے متعلق قرآن کی یہ تقریر زیادہ دل نشین اور عقل و فطرت کے مطابق ہے یا فلسفہ جدید کا یہ نظریہ زیادہ قرینِ عقل و فطرت ہے ؟ اس دنیا کے عام واقعات زلزلے، طوفان اور سیلاب ہی ہیں یا اس میں بہاریں بھی آتی ہیں، چاندنی بھی پھیلتی ہے، بارشیں بھی ہوتی ہیں، تارے بھی چھٹکتے ہیں، پھول بھی کھلتے ہیں اور فصلیں بھی پکتی ہیں۔ ہمارے عام مشاہدے میں زیادہ تر ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی یہ شانیں آتی رہتی ہیں یا صرف زلزلوں اور طوفانوں کی ہولناکیاں ہی آتی ہیں ؟ اس کائنات اور خود اپنی فطرت کے عجائب پر نگہ ڈالنے کے بعد انسان پر ان دیکھی طاقتوں کا ہول طاری ہوتا ہے یا ایک رحمان و رحیم اور منع و دیان خدا کے احسانات کے احساس سے دل کا ریشہ ریشہ لبریز ہوجاتا ہے ؟ جو شخص بھی ان سوالوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر غور کرے گا اور بے کم و کا ست اپنے سچے تاثر کا اظہار کرے گا وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ انسانی عقل اور انسانی فطرت کے بہاؤ کا اصلی رخ وہی ہے جس کا پتہ قران مجید دے رہا ہے، نہ کہ وہ جس کی طرف فلسفہ جدید لے جا رہا ہے۔ یہ نظریہ بھی بدیہی طور پر غلط معلوم ہوتا ہے کہ خوف کا جذبہ تمام دوسرے جذبات سے مقدم ہے۔ خوف کا تجزیہ کیجیے تو صاف نظر آئے گا کہ خوف نام ہے اس چیز کا کہ آپ کو کسی ایسی چیز کے چھن جانے یا اس سے محروم ہوجانے کا اندیشہ یا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جو آپ کو حاصل بھی ہے اور جو عزیز بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ انسان کے مشاہدہ کائنات اور مشاہدہ انفس کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں اور رحمتوں کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکر گزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا اور پھر اس جذبہ کی تحریک سے وہ اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ اس صحیح شاہراہ پر ایک مرتبہ پڑجانے کے بعد وہ دوسری غلط راہوں کی طرف کسی طرح مڑ گیا تو اس کا سبب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی جو اس گمراہی کا سبب بنی، بلکہ اس میں یا تو اختیار و ارادہ کے سوء استعمال کو دخل ہے یا عقل کی کج روی اور ہوا پرستی کو۔ اس مسئلہ پر بھی مفصل بحث ہم دوسری جگہ کرچکے ہیں۔ اقرارِ بندگی اور اظہارِ اعتما و توکل کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد "اھدنا الصراط المستقیم" کی دعا ہمارے سامنے آتی ہے اور اسی دعا پر ج واس تمام تمہید کے بعد اصلی حرف مدعا کی حیثیت رکھتی ہے، یہ سورۃ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد مغضوبوں اور گمراہوں کی روش سے اظہار بیزاری کا جو مضمون ہے وہ منفی پہلو سے اس دعا کی توضیح مزید ہے ۔ ( تدبر قرآن جلد اول : تفسیر سورہ فاتحہ )