محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت


محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت  اور سورۃُ المُزَّمِّل  کے مضامین 

نام :

پہلی ہی آیت کے لفظ المزمل کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام ہے، اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے۔

زمانۂ نزول :
اس سورت کے دو رکوع الگ زمانوں میں نازل ہوئے ہیں۔
پہلا رکوع بالاتفاق مکی ہے۔اس کے مضامین اور احادیث کی روایات دونوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مکی زندگی کے کس دور میں نازل ہوا ہے، اس کا جواب روایات سے تو نہیں ملتا، لیکن اس رکوع کے مضامین کی داخلی شہادت اس کا زمانہ متعین کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے:
اولاً، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تاکہ آپ کے اندر نبوت کے بارِ عظیم کواٹھانے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا جبکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جا رہی تھی۔
ثانیاً، اس میں حکم دیا گیا ہے کہ نمازِ تہجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ یہ ارشاد خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اُس وقت قرآن مجید کا کم از کم اتناحصہ نازل ہو چکا تھا کہ اس کی طویل قرات کی جا سکے۔
ثالثاً، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخالفین کی زیادتیوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفار مکہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رکوع اس زمانے میں نازل ہوا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسلام کی علانیہ تبلیغ شروع کر چکے تھے اور مکہ میں آپ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی۔
دوسرے رکوع کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ بھی مکہ ہی میں نازل ہوا ہے، لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اسے مدنی قرار دیاہے، اور اس رکوع کے مضامین سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے، اورظاہر ہے کہ مکہ میں اس کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، اور اس میں فرض زکٰوۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ زکٰوۃ یک مخصوص شرح اور نصاب کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔
موضوع اور مضامین :

پہلی سات آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جس کارِ عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپ اپنے آپ کو تیار کریں، اور اس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ راتوں کو اٹھ کر آپ آدھی آدھی رات، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔
آیت 8 سے 14 تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اس خدا کے ہو رہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اسی کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین جو باتیں آپ کے خلاف بنا رہے ہیں ان پر صبر کریں، ان کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی ان سے نمٹ لے گا۔ اس کے بعد آیات 15 سے 19 تک مکہ کے ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کر رہے تھے، متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دوچار ہوا۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟
یہ پہلے رکوع کے مضامین ہیں۔ دوسرا رکوع حضرت سعید بن جبیر کی روایت کے مطابق اس کے دس سال بعد نازل ہوا اور اس میں نماز تہجد کے متعلق اس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی باآسانی پھی جا سکے پڑھ لیا کرو لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنج وقتہ فرض نماز پوری پابندی کے ساتھ قائم رکھیں، فریضہ زکٰوۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کے ساتھ صرف کریں۔ آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ ان کی حیثیت اس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پر پہلے سے بھیج دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے، اور یہ پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔

(مزید حاشیہ کے لیے ترجمہ میں درج نمبر پر کلک کریں )



بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۶﴾ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ﴿۷﴾ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾ رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا ﴿۹﴾ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا ﴿۱۱﴾ اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا ﴿ۙ۱۲﴾ وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٭۱۳﴾ یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ وَ کَانَتِ الۡجِبَالُ کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا ﴿۱۴﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾ فَعَصٰی فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ فَاَخَذۡنٰہُ اَخۡذًا وَّبِیۡلًا ﴿۱۶﴾ فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿٭ۖ۱۷﴾ السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ کَانَ وَعۡدُہٗ مَفۡعُوۡلًا ﴿۱۸﴾ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا ﴿٪۱۹﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے1، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم2، آدھی رات ، یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو3، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو4۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں5۔ در حقیقت رات کا اُٹھنا6 نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر 7 اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے8۔ دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ اپنے ربّ کے نام کا ذکر کیا کرو9 اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنا لو10۔ اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاوٴ11۔اِن جُھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو12 اور اِنہیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت میں رہنے دو۔ ہمارے پاس ﴿اِن کے لیے﴾ بھاری بیڑیاں ہیں13 اور بھڑکتی ہوئی آگ اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔ یہ اُس دن ہو گا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں14۔
تم15 لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے16 جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسُول بھیجا تھا۔ ﴿پھر دیکھ لو کہ جب ﴾ فرعون نے اُس رسُول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔ اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جاوٴ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے17 گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہو گا؟ اللہ کا وعدہ تو پُور ا ہو کر ہی رہنا ہے۔ یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔ ؏١

(ماخوز از تفہیم القرآن ، جلد 6، مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودوی ؒ )