حق بات کو چھپانا بد ترین جرم ہے ۔

قرآن کی آیت وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ الخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کو غلط باتوں کے ساتھ گڈمڈ کرکے اس طرح پیش کرنا جس سے مخاطب مغالطہ میں پڑجائے جائز نہیں اسی طرح کسی خوف یا طمع کی وجہ سے حق بات کا چھپانا بھی جرم ہے ، اس آیت کے ضمن میں امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں حق کو چھپانے سے پرہیز کرنے کا ایک واقعہ اور مفصل مکالمہ حضرت ابو حازم تابعی اور خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا نقل کیا ہے۔ اسی طرح قرآن میں ہدایت کی گئی کہ 


لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَهٗ (١٨٣: ٣) (کہ لوگوں کے سامنے حق بات بیان کرو اس کو مت چھپاؤ) یہی وہ بات ہے جس کے لئے امام قرطبی نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں ایک طویل حکایت درج فرمائی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف حق گوئی میں کس قدر بے باک تھے ۔ یہ واقعہ مشہور تابعی ابوحاز ؒ کا ہے ۔ 

مسند دارمی میں سند کے ساتھ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبد الملک مدینہ طیبہ پہنچے اور چند روز قیام کیا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ طیبہ میں اب کوئی ایسا آدمی موجود ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائی ہو؟ لوگوں نے بتلایا ہاں ابوحازم ایسے شخص ہیں، سلیمان نے اپنا آدمی بھیج کر ان کو بلوا لیا جب وہ تشریف لائے۔


تو سلیمان نے کہا کہ اے ابوحازم یہ کیا بےمروتی اور بیوفائی ہے؟

ابوحازم نے کہا آپ نے میری کیا بےمروتی اور بیوفائی دیکھی ہے؟ 

سلیمان نے کہا کہ مدینہ کے سب مشہور لوگ مجھ سے ملنے آئے آپ نہیں آئے۔


ابوحازم نے کہا امیر المؤ منین میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اس سے کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں جو واقعہ کے خلاف ہو آج سے پہلے نہ آپ مجھ سے واقف تھے اور نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا تھا ایسے حالات میں خود ملاقات کے لئے آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بیوفائی کیسی؟

سلیمان نے جواب سن کر ابن شہاب زہری اور حاضرین مجلس کی طرف التفات کیا تو امام زہری نے فرمایا کہ ابوحازم نے صحیح فرمایا آپ نے غلطی کی، 

اس کے بعد سلیمان نے روئے سخن بدل کر کچھ سوالات شروع کئے اور کہا اے ابوحازم یہ کیا بات ہے کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کو ویران اور دنیا کو آباد کیا ہے اس لئے آبادی سے ویرانہ میں جانا پسند نہیں ۔

سلیمان نے تسلیم کیا اور پوچھا کہ کل اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہوگی؟ فرمایا کہ نیک عمل کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسا کوئی مسافر سفر سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہے اور برے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہوگا جیسا کوئی بھاگا ہوا غلام پکڑ کر آقا کے پاس حاضر کیا جائے،

سلیمان یہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے ابوحازم نے فرمایا کہ اپنے اعمال کو اللہ کی کتاب پر پیش کرو تو پتہ لگ جائیگا، سلیمان نے دریافت کیا کہ قرآن کی کس آیت سے یہ پتہ لگے گا ؟ فرمایا اس آیت سے، اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ ۚوَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍ (١٤: ١٣: ٨٢) یعنی بلاشبہ نیک عمل کرنے والے جنت کی نعمتوں میں ہیں اور نافرمان گناہ شعار دوزخ میں، 

سلیمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بڑی ہے وہ بدکاروں پر بھی حاوی ہے فرمایا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ (٥٦: ٧) یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے، 

سلیمان نے پوچھا اے ابو حازم اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ کون عزت والا ؟ فرمایا وہ لوگ جو مروّت اور عقل سلیم رکھنے والے ہیں،

پھر پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ تو فرمایا کہ فرائض وواجبات کی ادائیگی حرام چیزوں سے بچنے کے ساتھ، 

پھر دریافت کیا کہ کونسی دعا زیادہ قابل قبول ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص پر احسان کیا گیا ہو اس کی دعا اپنے محسن کے لئے اقرب الی القبول ہے،

پھر دریافت کیا کہ صدقہ کونسا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ مصیبت زدہ سائل کے لئے باوجود اپنے افلاس کے جو کچھ ہوسکے اس طرح خرچ کرنا کہ نہ اس سے احسان جتائے اور نہ ٹال مٹول کرکے ایذاء پہونچائے،

پھر دریافت کیا کہ کلام کونسا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص سے آپ کو خوف ہو یا جس سے تمہاری کوئی حاجت ہو اور امید وابستہ ہو اس کے سامنے بغیر کسی رو رعایت کے حق بات کہہ دینا پھر دریافت کیا کہ کونسا مسلمان سب سے زیادہ ہوشیار ہے؟ فرمایا وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تحت کام کیا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی ہو،

پھر پوچھا کہ مسلمانوں میں کون شخص احمق ہے؟ فرمایا وہ آدمی جو اپنے کسی بھائی کی اس کے ظلم میں امداد کرے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اس نے دوسرے کی دنیا درست کرنے کے لئے اپنا دین بیچ دیا سلیمان نے کہا کہ صحیح فرمایا

اس کے بعد سلیمان نے اور واضح الفاظ میں دریافت کیا کہ ہمارے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، ابوحازم نے فرمایا کہ مجھے اس سوال سے معاف رکھیں تو بہتر ہے سلیمان نے کہا کہ نہیں آپ ضرور کوئی نصیحت کا کلمہ کہیں ۔

ابوحازم نے فرمایا اے امیر المؤ منین! آپ کے آباء واجداد نے بزور شمشیر لوگوں پر تسلط کیا اور زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت قائم کی اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اب وہ مرنے کے بعد کیا کہتے ہیں اور ان کو کیا کہا جاتا ہے۔

حاشیہ نشینوں میں ایک شخص نے بادشاہ کے مزاج کے خلاف ابوحازم کی اس صاف گوئی کو سن کر کہا کہ ابوحازم آپ نے یہ بہت بری بات کہی ہے ابوحازم نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو بری بات نہیں کہی بلکہ وہ بات کہی جس کا ہم کو حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علماء سے اس کا عہد لیا ہے کہ حق بات لوگوں کو بتلائیں گے چھپائیں گے نہیں لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَهٗ (١٨٣: ٣) یہی وہ بات ہے جس کے لئے یہ طویل حکایت امام قرطبی نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں درج فرمائی ہے،

سلیمان نے پھر سوال کیا کہ اچھا اب ہمارے درست ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ فرمایا کہ تکبر چھوڑو مروّت اختیار کرو اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو ۔

سلیمان نے کہا کہ ابوحازم کیا ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں فرمایا خدا کی پناہ! سلیمان نے پوچھا یہ کیوں؟ فرمایا کہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال ودولت اور عزت وجاہ کی طرف کچھ مائل ہوجاؤں جس کے نتیجہ میں مجھے عذاب بھگتنا پڑے،

پھر سلیمان نے کہا کہ اچھا آپ کی کوئی حاجت ہو تو بتلائیے کہ ہم اس کو پورا کریں ؟ فرمایا ہاں ایک حاجت ہے کہ جہنم سے نجات دلادو اور جنت میں داخل کردو، سلیمان نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں فرمایا کہ پھر مجھے آپ سے اور کوئی حاجت مطلوب نہیں، 

آخر میں سلیمان نے کہا کہ اچھا میرے لئے دعا کیجئے تو ابوحازم نے یہ دعا کی یا اللہ اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ ہے تو اس کے لئے دنیا وآخرت کی بہتری کو آسان بنا دے اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے تو اس کے بال پکڑ کر اپنی مرضی اور محبوب کاموں کی طرف لے آ،

سلیمان نے کہا کہ مجھے کچھ وصیت فرمادیں ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت وجلال اس درجہ میں رکھو کہ وہ تمہیں اس مقام پر نہ دیکھے جس سے منع کیا ہے اور اس مقام سے غیر حاضر نہ پائے جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا۔ 

سلیمان نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعد سو گنیاں بطور ہدیہ کے ابوحازم کے پاس بھجیں ابوحازم نے ایک خط کے ساتھ ان کو واپس کردیا خط میں لکھا تھا کہ اگر یہ سو دینار میرے کلمات کا معاوضہ ہیں تو میرے نزدیک خون اور خنزیر کا گوشت اس سے بہتر ہے اور اگر اس لئے بھیجا ہے کہ بیت المال میں میرا حق ہے تو مجھ جیسے ہزاروں علماء اور دین کی خدمت کرنے والے ہیں اگر سب کو آپ نے اتنا ہی دیا ہے تو میں بھی لے سکتا ہوں ورنہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، 

ابوحازم کے اس ارشاد سے کہ اپنے کلمات نصیحت کا معاوضہ لینے کو خون اور خنزیر کی طرح قرار دیا ہے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ کسی اطاعت وعبادت کا معاوضہ لینا ان کے نزدیک جائز نہیں۔

(بحوالہ معارف القرآن ، حضرت مولانا مفتی  محمد شفیع ؒ  تفسیر سورہ بقرہ: آیت : 42)