مطالعہ قرآن ، عبد الماجد دریا بادی ؒ

مطالعہ فرمانے کے وقت اگر معروضات ذیل کو پیش نظر رکھا جائے تو ان شاء اللہ فہم مطالب میں بڑی سہولت رہے گی ۔ 

1- قرآن حکیم ایک نہایت درجہ مرتّب و منظّم کتاب ہے ۔ اس لئے اسی نسبت سے دشوار بھی ہے ۔ اسے جو آسان فرمایا گیا ہے وہ صرف موعظہ اور عبرت پزیری کے اعتبار سے ہے اگر اس کے مطالب کو کوئی گرفت میں لانا چاہے تو اس کے لئے سر سری مطالعہ خصوصا انڈیکس (اشاریہ )کی مدد سے ہر گز کافی نہ ہوگا ۔ مدتوں کے مسلسل اور غائر مطالعہ کے بعد کہیں اس سے مناسبت پیدا ہوتی ہے اور دشواریاں مناسبت پیدا ہونے کے بعد ہی حل ہوسکتی ہے ۔ اس لئے قرآن فہمی میں بہت زیادہ عجلت کو دخل دینا ہر گز مناسب نہیں ۔ 

2- قرآن مجید ایک زندہ صحیفہ بھی ہے اورماضی کی کتاب بھی ، یعنی ایک طرف تو اس کی مخاطب عرب کی وہ قوم جو اس کے نزول کے وقت موجود تھی ۔ بلکہ ساری قوم عرب کیوں کہیے ، زیادہ صحت کے ساتھ یوں کہیے کہ مکہ اور مضافات مکہ اور مدینہ وحوالئ مدینہ کے باشندے تھے ۔ اوردوسری طرف اس کے مخاطب روس وجاپان ، چین اور ہندوستان ، امریکا ،آسٹریلیا ، کل روئے زمین کے باشندے قیامت تک کے لئے ہیں ۔ اس کی یہ دونوں حیثیتیں نہ صرف موجود ہیں بلکہ برابر ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ اور ترتیب زمانی کے لحاظ سے پہلی حیثیت اہم تر اور مقدم ہے ۔ جنت کی نعمتوں ، دوزخ کے عذابوں ،آسمان کی ساخت زمین کی حرکت و سکون ، ستاروں کی گردش وغیرہ سے متعلق کوئی ایسی بات اگروہ بیان کر دیتا جو اس کے مخاطبین اوّل ، یعنی چھٹی صدی عیسوی کے اہل حجاز کے مسلمات کے خلاف یا ان کے فہم سے باہر ہوتی تو وہ لوگ خواہ مخواہ ایک نئے الجھاوے میں پڑجاتے اور محض اس سے ان کے دماغ وحشت کھاکر قرآن کے بنیادی عقائد توحید ،رسالت ، حشرونشر وغیرہ کی تکذیب پر آمادہ ہوجاتے ۔ اس لئے قرآن نے نہایت حکیمانہ اسلوب یہ اختیار کیا کہ صراحتیں تو تمام تر مذاق عرب کے مطابق ہی کیں ، لیکن ساتھ ہی اشارے ایسے بھی رکھے کہ بعد کی نسلیں اور ہر دور کے مخاطبین اپنی اپنی فہم و استعداد کے ماتحت اس سے روشنی حاصل کرسکیں ۔۔۔۔یہ ایک بنیادی نکتہ اگر مستحضر رہے تو بہت سے اشکالات ان شاء اللہ دور ہوجائیں گے ۔ 

3-قرآن حکیم اپنے نفس مضمون یعنی معانی و مطالب کے لحاظ سے ساری کائنات انسانی کو مخاطب کئے ہوئے ہے ۔ سب کی عقلوں اور ذہنوں کو سامنے رکھے ہوئے ہے ۔ لیکن جہاں تک طرز ادا اور اسلوب خطاب کا تعلق ہے وہ عربی کلام ہے اور اپنی صنعتوں اور لطافتوں ، فقروں کی ترکیب ، الفاظ کی نشست میں تماتر عربی ادب و انشا کے لیے خود معیار اعلی کا کام دے رہا ہے ۔ اس میں روانی شستگی، سلاست ، اردو یا فارسی یا ہندی یا انگریزی یا ترکی یا جرمنی ادب کے معیار سے تلاش کر نا شدید کوتہ فہمی ہے ۔ اس کی انشائی خوبیوں سے لطف اٹھانے کے لئے قدیم خطبات عرب سے واقفیت ضروری ہے ۔ اور اس کی انشابردازی و بلاغت کو جب کبھی کسی غیر معمولی معیار سے دیکھا جائے گا تو ہمیشہ غلط فہمی ہی ہوگی ۔ 

4- قرآن مجید کی دنیا ، حکمت و اخلاق ، روحانیت ، و انسانیت کبرٰی کی دنیا ہے ۔ اس کی فضا تحقیق و طلب کی فضا ، اور اس کا ماحول تقوی و طہارت کا ماحول ہے ۔ اس کی گہرائیوں تک رسائی کے لئے تقوی کسی درجہ میں تو بہر حال لازمی ہے ۔ طہارت قلب و طہارت جسم کا مطلق اہتمام کئے بغیر محض زبان دانی کے بھروسہ پر قرآن سمجھ لینے کی کوشش ایک سعی لاحاصل ہے ۔ ابوجہل اور ابولھب سے بڑھ کر زبان داں کون تھا ؟ کوئی لغوی یا صرفی و نحوی اشکال انہیں کبھی کیوں پیش آ تھا ۔ لیکن اپنی روح کو انہوں نے قرآنی روح سے یکسر بیگانہ و ناآشنا رکھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن ان پر ذرا بھی نہ کھلا ۔ باکل بند ہی رہا ۔ اور وہ فہم قرآنی کے درجۂادنی کی بھی سعادت سے محروم ہی رہے ۔ 

کلام بڑے غیو راور غنی عن العٰلمین کا ہے ۔ اس کا ہے جس سے بڑھ کر کوئی نہ غیر ت مند ہے نہ بے نیاز ۔ اور متکلم کی شان غیرت و غنا کا ظہور کلام میں بھی درجہ اتم میں ہے ۔ جو بڑے بننے کی آرزو رکھتے ہیں ، انہیں چھوٹا بن کر اس دروازہ میں داخل ہونا ہوگا ۔ قال العارف الرومی :- 

فہم وخاطر تیز کر دن نیست راہ ۔۔۔۔۔۔ جزکہ اشکتہ نگیر ، فضل شاہ 

5- استاد کی ضرورت تو چھوٹے سے چھوٹے علم اور سہل سے سہل فن میں بھی تقریبا ناگزیر ہی ہے ۔ پھر قرآن کا علم تو بڑا مہتم بالشان علم ہے ۔ اس میں کوئی طالب علم استاد سے بے نیاز کیسے رہ سکتا ہے ؟ کوئی زندہ استاد اگر کامل فن نہ ملے تو اس کی قائم مقامی اکابر مفسرین اور محقق شارحین کی کتابیں کرسکتی ہیں ۔ 



( تفسیر ماجدی ، (دیباچہ تفسیر ) عبد الماجد دریابادی ؒ تاریخ تحریر: دسمبر 1944ء )