سورة النَّحْل: زمانہ نزول، موضوع اور مرکزی مضمون و مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام : یت ٦٨ کے فقرے وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی محض علامت ہے نہ کہ موضوع بحث کا عنوان۔ 

زمانہ نزول :


متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانہ نزول پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلًا :


آیت ٤١ کے فقرے والَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرت حبشہ واقع ہوچکی تھی۔


آیت ١٠٦ مَنْ کَفَرَ باللہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہ الآ یہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہو رہا تھا اور یہ سوال پیدا ہوگیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہو کر کلمہ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے۔


آیات ١١٢ – ١١٤ وَضَرَ بَ اللہُ مَثَلًا قَرْ یَۃً ۔۔ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد مکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورے کے نزول کے وقت ختم ہوچکا تھا۔


اس سورۃ میں آیت ١١٥۔ ایسی ہے جس کا حوالہ سورۃ انعام آیت ١١٩ میں دیا گیا ہے، اور دوسری آیت (نمبر ١١٨) ایسی ہے جس میں سورۃ انعام کی آیت ١٤٦ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے۔


ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورۃ کا زمانہ نزول بھی مکے کا آخری دور ہی ہے، اور اسی کی تائید سورۃ کے عام انداز بیان سے بھی ہوتی ہے۔ 


موضوع اور مرکزی مضمون :


”شرک کا ابطال، توحید کا اثبات، دعوت پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش، اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجرو توبیخ۔ 


مباحث :


“ سورۃ کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ ”جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا عذاب آکیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو“۔ اس بات کو وہ بالکل تکیہ کلام کی طرح اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے، اب اسکے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ جو ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کہ بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فورا ہی تفہیم کی تقریر شروع ہوجاتی ہے اور حسب ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں :


(١) دل لگتے دلائل اور آفاق و انفس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے۔


(٢) منکرین کے اعتراضات، شکوک، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا جاتا ہے۔


(٣) باطل پر اصرار اور حق کے مقابلہ میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے۔ 


(٤) ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشین انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے، اور اس سلسلہ میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا، جس کا انہیں دعویٰ تھا، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد، اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہییں ۔


(٥) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفاکاریوں کے مقابلہ میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

(تفہیم القرآن جلد دوم ، سید ابوالاعلی مودودیؒ )