حق قابل فہم کب بنتا ہے ؟

ایک شخص اپنی آنکھ کو بند کرلے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی وہ سورج کو نہ دیکھے گا کوئی شخص اپنے کان میں روئی ڈال لے تو کان رکھتے ہوئے بھی وہ باہر کی آواز کو نہیں سنے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ حق کا بھی ہے۔ حق کا اعلان خواہ کتنا ہی واضح صورت میں ہو رہا ہومگر کسی کے لیے وہ قابل فہم یا قابل قبول اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ اس کے لیے اپنے دل کے دروازے کھلا رکھے۔ جو شخص اپنے دل کے دروازے بند کرلے، اس کے لیے کائنات میں خدا کی خاموش پکار اور داعی کی زبان سے اس کا لفظی اعلان دونوں بے سود ثابت ہوں گے۔ 

حق کی دعوت جب اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو وہ اتنی زیادہ مبنی بر حقیقت اور اتنی زیادہ مطابق فطرت ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس کی نوعیت کو سمجھنے سے عاجز نہیں رہ سکتا۔ جو شخص بھی کھلے ذہن سے اس کو دیکھے گا اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ عین حق ہے۔ مگر اس وقت عملی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف وقت کا ڈھانچہ ہوتا ہے جو صدیوں کے عمل سے ایک خاص صورت میں قائم ہوجاتا ہے۔ اس ڈھانچہ کے تحت کچھ مذہبی یا غیر مذہبی گدیاں بن جاتی ہیں جن پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ عزت و شہرت کی صورتیں رائج ہوجاتی ہیں جن کے جھنڈے اٹھا کر کچھ لوگ وقت کے اکابر کا مقام حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ کاروبار اور مفادات قائم ہوجاتے ہیں جن کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرکے بہت سے لوگ اطمینان کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ 

ان حالات میں جب ایک غیر معروف کونے سے اللہ اپنے ایک بندے کو کھڑا کرتا ہے اور اس کی زبان سے اپنی مرضی کا اعلان کراتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو اپنی بنی بنائی دنیابھنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ حق کے پیغام کی تمام تر صداقت کے باوجود دو چیزیں ان کے لیے اس کو صحیح طور پر سمجھنے رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ایک کبر، دوسرے دنیا پرستی۔ جو لوگ مروجہ ڈھانچہ میں بڑائی کے مقامات پر بیٹھے ہوئے ہوں ان کو ایک چھوٹے آدمی کی بات ماننے میں اپنی عزت خطرہ میں پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ احساس ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جگا دیتا ہے۔ داعی کو وہ اپنے مقابلہ میں حقیر سمجھ کر اس کی دعوت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی طرح دنیوی مفادات کا سوال بھی قبول حق میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ کیونکہ حق کا داعی مروجہ ڈھانچہ کا نمائندہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک نئی اور غیر مانوس آواز کو لے کر اٹھتا ہے، اس لیے اس کو ماننے کی صورت میں لوگوں کو اپنے مفادات کا دھانچہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے ۔

یہی وہ مانع کیفیت ہے جس کو قرآن میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے، جو لوگ دعوت حق کے معاملہ کو سنجیدہ معاملہ نہ سمجھیں۔ جو گھمنڈ اور دنیا پرستی کی نفسیات میں مبتلا ہوں ان کے ذہن کے اوپر ایسے غیر محسوس پردے پڑجاتے ہیں جو حق بات کو ان کے ذہن میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ کسی چیز کے بارے میں آدمی کے اندر مخالفانہ نفسیات جاگ اٹھیں تو اس کے بعد وہ اس کی معقولیت کو سمجھ نہیں پاتا۔ خواہ اس کے حق میں کتنے ہی واضح دلائل پیش کیے جارہے ہوں ۔

(تذکیر القرآن ، سورہ بقرہ تفسیر آیت 6 تا 7: مولانا وحید الدین خان )