سچی طلب اور سچی یافت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں - مولانا وحید الدین خان


سورہ بقرہ : الم تا ھم المفلحون آیت 1-5کی روشنی میں ۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ مگر وہ ہدایت کی کتاب اس کے لیے ہے جو فی الواقع ہدایت کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو اس کی پروا اور کھٹک رکھتا ہو۔ سچی طلب جو فطرت کی زمین پر اگتی ہے وہ خود پانے ہی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ سچی طلب اور سچی یافت دونوں ایک ہی سفر کے پچھلے اور اگلے مرحلے ہیں۔ یہ گویا خود اپنی فطرت کے بند صفحات کو کھولنا ہے۔ جب آدمی اس کا سچا ارادہ کرتا ہے تو فوراً فطرت کی مطابقت اور اللہ کی نصرت اس کا ساتھ دینے لگتی ہے، اس کو اپنی فطرت کی مبہم پکار کا متعین جواب ملنا شروع ہوجاتا ہے 

ایک آدمی کے اندر سچی طلب کا جاگنا عالم ظاہر کے پیچھے عالم باطن کو دیکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ تلاش جب یافت کے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو وہ ایمان بالغیب بن جاتی ہے۔ وہی چیز جو ابتائی مرحلہ میں ایک برتر حقیقت کے آگے اپنے کو ڈال دینے کی بے قرار کا نام ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کا نمازی بننے کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ وہی جذبہ جو ابتداءً اپنے کو خیر اعلی کے لیے وقف کردینے کے ہم معنی ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کی راہ میں اپنے اثاثہ کو خرچ کرنے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ وہی کھوج جو زندگی کے ہنگاموں کے آگے اس کا آخری انجام معلوم کرنے کی صورت میں کسی کے اندر ابھرتی ہے وہ آخرت پر یقین کی صورت میں اپنے سوال کا جواب پا لیتی ہے۔ 

سچائی کو پانا گویا اپنے شعور کو حقیقت اعلیٰ کے ہہم سطح کرلینا ہے۔ جو لوگ اس طرح حق کو پا لیں وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ وہ سچائی کو اس کے لیے آمیز روپ میں دیکھنے لگتے ہیں، اس لیے سچائی جہاں بھی ہو ! اور جس بندہ خدا کی زبان سے اس کا اعلان کیا جا رہا ہو وہ فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور اس پر لبیک کہتے ہیں کوئی جمود، کوئی تقلید اور کوئی تعصباتی دیوار ان کے لیے اعتراف حق میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ ان کو دنیا میں اس سچے راستہ پر چلنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کی آخری منزل یہ ہے کہ آدمی آخرت کی ابدی نعمتوں میں داخل ہوجائے۔ 

حق کو وہی پا سکتا ہے جو اس کا ڈھونڈنے والا ہے، اور جو ڈھونڈنے والا ہے وہ ضرور اس کو پا تا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے اور پانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ۔

(تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خان )