بندے کے لیے کسی کام کا سب سے بہتر آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو اپنے رب کے نام سے شروع کرے۔ وہ ہستی جو تمام رحمتوں کا خزانہ ہے اور جس کی رحمتیں ہر وقت ابلتی رہتی ہیں، اس کے نام سے کسی کام کا آغاز کرنا گویا اس سے یہ دعا کرنا ہے کہ تو اپنی بے پایاں رحمتوں کے ساتھ میری مدد پر آجا اور میرے کام کو خیر و خوبی کے ساتھ مکمل کردے۔ یہ بندے کی طرف سے اپنی بندگی کا اعتراف ہے اور اسی کے ساتھ اس کی کامیابی کی الٰہی ضمانت بھی ۔
قرآن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مومن کے قلبی احساسات کے لیے صحیح ترین الفاظ مہیا کرتا ہے۔ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ اسی نوعیت کے دعائیہ کلام ہیں۔ سچائی کو پالینے کے بعد فطری طور پر آدمی کے اندر جو جذبہ ابھرتا ہے، اسی جذبہ کو ان الفاظ میں مجسم کردیا گیا ہے۔
آدمی کا وجود اس کے لیے اللہ کا ایک عظیم عطیہ ہے اس کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی آدمی سے کہا جائے کہ تم اپنی دونوں آنکھوں کو نکلوادو یا دونوں پیروں کو کٹوا دو، اس کے بعد تم کو ملک کی بادشاہی دے دی جائے گی تو کوئی بھی شخص اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔ گویا کہ یہ ابتدائی قدرتی عطیے بھی بادشاہ کی بادشاہی سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اسی طرح آدمی جب اپنے گردو پیش کی دنیا کو دیکھتا ہے تو یہاں ہر طرف خدا مالکیت اور رحیمیت ابلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کو ہر طرف غیر معمولی اہتمام نظر آتا ہے۔ اس کو دکھائی دیتا ہے کہ دنیاکی تمام چیزیں حیرت انگیز طور پر انسانی زندگی کے موافق بنا دی گئی ہیں۔ یہ مشاہدہ اس کو بتاتا ہے کہ کائنات کا یہ عظیم کارخانہ بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ لازمی طور پر ایسا دن آنا چاہیے جب ناشکروں سے ان کی ناشکر گزار زندگی کی باز پرس کی جائے اور شکر گزاروں کو ان کی شکر گزار زندگی کا انعام دیا جائے۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا ! تو فیصلہ کے دن کا مالک ہے۔ میں اپنے آپ کو تیرے آگے ڈالتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں، تو مجھ کو اپنے سایہ میں لے لے۔ خدایا ! ہم کو وہ راستہ دکھا جو تیرے نزدیک سچا راستہ ہے یا ان لوگوں کا جو اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے تیرے غضب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
اللہ کا مطلوب بندہ وہ ہے جو ان احساسات و کیفیات کے ساتھ دنیا میں جی رہا ہو۔ سورۃ فاتحہ اس بندہ مومن کی چھوٹی تصویر ہے اور بقیہ قرآن اس بندہ مومن کی بڑی تصویر ۔
----------------------------------
(تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خان)