سورة قٓ : زمانہ نزول، موضوع اور مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : آغاز ہی کے حرف " ق " سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا افتتاح حرف ق سے ہوتا ہے۔ 

زمانۂ نزول :


کسی معتبر روایت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ ٹھیک کس زمانہ میں نازل ہوئی ہے، مگر مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے سال سے شروع ہو کر پانچویں سال تک رہا۔ اس سورۃ کی خصوصیات ہم سورۃ انعام کے دیباچہ میں بیان کرچکے ہیں۔ ان خصوصیات کے لحاظ سے اندازاً یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ سورۃ پانچویں سال میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ کفار کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کرچکی تھی، مگر ابھی ظلم و ستم کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

موضوع اور مباحث :


معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ایک خاتون ام ہشام بن حارثہ، جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پڑوسن تھیں، بیان کرتی ہیں کہ مجھے سورۃ ق یاد ہی اسطرح ہوئی کہ میں جمعہ کے خطبوں میں اکثر آپ کی زبان مبارک سے اس کو سنتی تھی۔ بعض اور روایت میں آیا ہے کہ فجر کی نماز میں بھی آپ بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ میں یہ ایک بڑی اہم سورۃ تھی۔ اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بار بار اس کے مضامین پہنچانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ 


اس اہمیت کی وجہ سورۃ کو بغور پڑھنے سے بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ پوری سورۃ کا موضوع آخرت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ لوگ کہتے تھے یہ تو بالکل انہونی بات ہے۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہوسکتا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہوچکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گزرنے کے بعد پھر اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنا دیا جائے اور ہم زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع پر دلائل دیے گئے ہیں، اور دوسری طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو، یا بعید از عقل سمجھو، یا جھٹلاؤ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے کہ یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہوجائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح تمہارا یہ خیال کہ تم یہاں شتر بےمہار بنا کر چھوڑ دیے گئے ہو اور کسی کے سامنے تمہیں جواب دہی نہیں کرنی ہے، ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست خود بھی تمہارے ہر قول و فعل سے، بلکہ تمہارے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہے، اور اس کے فرشتے بھی تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے تمام حرکات و سکنات کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں۔ جب وقت آئے گا تو ایک پکار پر تم بالکل اسی طرح نکل کھڑے ہو گے جس طرح بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی زمین سے نباتات کی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اس وقت یہ غفلت کا پردہ جو آج تمہاری عقل پر پڑا ہوا ہے، تمہارے سامنے سے ہٹ جائے گا اور تم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کا آج انکار کر رہے ہو۔ اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تم دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ذمہ دار اور جواب دہ تھے۔ جزا و سزا، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ جنہیں آج فسانہ عجائب سمجھ رہے ہو، اس وقت یہ ساری چیزیں تمہاری مشہود حقیقتیں ہونگی۔ حق سے عناد کی پاداش میں اسی جہنم کے اندر پھینکے جاؤ گے جسے آج عقل سے بعید سمجھتے ہو، اور خدائے رحمان سے ڈر کر راہ راست کی طرف پلٹنے والے تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی جنت میں جائیں گے جس کا ذکر سن کر آج تمہیں تعجب ہو رہا ہے۔

------------------------------

(تفہیم القرآن ، مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ )