ارشاد باری تعالی ہے ۔
وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ (سورۃ الاعراف 46۔ )
ترجمہ :" اور ان کے درمیان پردے کی دیوار ہوگی اور دیوار کی برجیوں پر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی علامت سے پہچانیں گے اور وہ اہل جنت کو پکار کر کہٰں گے کہ آپ پر اللہ کی رحمت و سلامتی ہو، وہ اس میں ابھی داخل نہیں ہوئے ہوں گے لیکن متوقع ہوں گے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حجاب سے مراد جنت اور دوزخ کے درمیان کی دیوار ہے : وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ، حجاب مراد جیسا کہ خود قراان کے دوسرے مقام سے واضح ہے، وہ دیور ہے جو دوزخ اور جنت کے درمیان کھڑی کردی جائے گی۔ سورۃ حدید میں ہے۔ فضرب بینہم بسور (حدید ۔14) (پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی) ایک ایسی دیوار کے طور و عرض کا اندازہ کون کرسکتا ہے جو پورے عالم جنت اور سارے عالمِ دوزخ کے درمیان حد فاصل کا کام دے گا جب کہ صرف جنت کی وسعتوں کی تمثیل قراان نے آسمانوں اور زمین کی وسعتوں سے دی ہے۔
اعراف کا مفہوم : اعراف، عُرف کی جمع ہے، عرف گھوڑے کی پیشانی کی چوٹی اور مرغ کی کلگی کو کہتے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ کسی مینارہ یا برجی یا دیدبان کے لیے استعمال ہوا جو کسی اونچی دیوار یا پہاڑ پر بنا دیا جائے، جہاں سے تمام اطراف و جوانب کا بیک نظر مشاہدہ ہوسکے۔ قرآن کے اسلوب بیان سے واضح ہے کہ جنت و دوخ کے درمیان جو دیوار کھڑی کی جائے گی، یہ اعراف یعنی مینارے اور برجیاں اسی دیوار پر ہوں گے جہاں سے جنت و دوزخ کے تمام مناظر کا مشاہدہ ہوسکے۔ قرآن کے اسلوب بیان سے واضح ہے کہ جنت و دوزخ کے درمیان جو دیوار کھڑی کی جائے گی یہ اعراف یعنی مینارے اور برجیاں اسی دیوار پر ہوں گے جہاں سے جنت و دوزخ کے تمام مناظر کا مشاہدہ ہوسکے گا ۔
رجال سے مراد : رجال کا لفظ یوں تو اپنے عام مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن عربیت کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس سے بالعموم نمایاں اور ممتاز اشخاص مراد ہوتے ہیں۔ مثلا رجال لا تلہیہم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ (نور 37) (ایسے رجال جن کو تجارت اور خرید و فروخت یاد الٰہی سے غافل نہیں کرتی)‘ من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ (احزاب :23) (اور اہل ایمان میں ایسے رجال ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچ کردکھایا جو خدا سے انہوں نے باندھا)۔ یہیں آیت 48 میں بھی یہ لفظ ائمہ کفر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ ۔
‘ کلا ’ لفظ کل ہم دوسرے مقام میں بتا چکے ہیں کہ جب یہ جماعتوں یا اشخاص کے ذکر کے بعد اس طرح آئے جس طرح یہاں آیا ہے تو یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے معرفہ بن جاتا ہے۔ یعنی اس سے مراد وہی گروہ یا اشکاص ہوں گے جن کا ذکر اوپر گزرا۔ یہاں اوپر اہل جنت اور اہل دوخ کا ذکر ہوا چنانچہ اس سے مراد وہی دونوں گروہ بحیثیت گروہ ہیں ۔
اہل جنت اور اہل دوزخ اپنی نمایاں علامتوں سے ممتاز ہوں گے :۔ سیما کے معنی علامت اور نشان کے ہیں مثلا سیماھم فی وجوہہم من اثر السجود، قرآن مجید اور احادیث دونوں میں اس بات کے اشارات موجود ہیں کہ قیامت میں اہل ایمان اور اہل کفر دونوں اپنے اپنے اعمال کے اثرات سے ممتاز و ممیز ہوں گے مسلم شریف میں ایک حدیث ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ کی امت میں سے جو لوگ آپ کے بعد آئیں گے آپ ان کو کیسے پہچانیں گے ؟ آپ نے فرمایا، ا گر ایک شخص کے پنچ کلیان گھوڑے دوسرے گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں تو کیا وہ ان کو پہچان نہ لے گا ؟ لوگوں نے کہا، یہ بات تو ٹھیک ہے یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح میری امت کے لوگ قیامت کے دن اپنے وضو کے آثار سے اس طرح نمایاں ہوں گے کہ ان کی پیشانیاں اور ان کے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ ابولہب کی بیوی کے متعلق خود قرآن مجید میں مذکور ہے کہ قیامت کے دن اس کے گلے میں اس طرح کی رسی پڑی ہوئی ہوگی جس طرح کی رسی ایندھن جمع کرنے والی لونڈیاں اپنے گلے میں ڈال کرلکڑیاں چننے کے لیے نکلا کرتی ہیں۔ اس نوع کے بعض اشارات معراج سے متعلق احادیث میں بھی موجود ہیں۔ غرض یہ بات واضح ہے کہ اہل ایمان ہوں یا اہل کفر دونوں گروہ اپنے اپنے محل میں اپنی نمایاں نشانیوں اور علامات کے ذریعے ممتاز ہوں گے اور اہل اعراف ان علامات کے واسطہ سے اہل جنت کے صدیقین، شہدا اور صالحین و ابرار کو بھی پہچان لیں گے اور اہل دوزخ کے لیڈروں اور اشرار و مفسدین کو بھی۔
اصحاب اعراف کون لوگ ہوں گے ؟
اجزائے کلام کی تشریح کے بعد قابل غور سوال صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اصحاب الاعراف کون لوگ ہوں گے ابن جریر نے اس سوال کے جواب میں چار قول نقل کیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں دونوں قول میں برابر برابر اتری ہوں گی، اس وجہ سے ان کا فیصلہ ابھی معلق ہوگا کہ دوخ میں بھیجے جائیں یا جنت میں۔ دوسرا یہ کہ یہ علما اور فقہا کا گروہ ہوگا۔ تیسرا یہ کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد میں حصہ لیا ہوگا۔ چوتھا یہ کہ یہ ملائکہ ہوں گے۔ ان میں سے مؤخر الذکر دونوں قول تو بالکل ہی بے جان ہیں۔ ان کی تائید میں کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن میں موجود نہیں ہے اس وجہ سے ان پر کسی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔
پہلا قول اگرچہ بہت مشہور ہے یہاں تک کہ مصرع از دوزخیاں پرس کہ اعراف بہشت است، ہمارے لٹریچر میں ضرب المثل کی حیثیت حاصل کردیا ہے لیکن کئی پہلوؤوں سے یہ قول بھی ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ یہاں ان کے لیے رجال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، جب اس طرح آتا ہے جس طرح یہاں آیا ہے تو اس سے مراد نمایاں اشخاص و رجال ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کا حال یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی نیکیاں اتنی بھی نہ ہوں گی کہ ان کی بدیوں پر بھاری ہوسکیں آخر ان کا ایسا نمایاں وصف کیا ہے جس کے سبب سے ان کا ذکر اس لفظ سے کیا گیا ؟
دوسرا یہ کہ جن کی نیکیاں اور بدیاں دونوں برابر ہوں گی ضروری نہیں کہ وہ سب مرد ہی ہوں ان میں عورتین بھی ہوسکتی ہیں۔ پھر ان کے لیے رجال کا لفظ کیوں استعمال ہوا، کوئی ایسا لفظ کیوں نہ استعمال ہوا جو جامع نوعیت کا ہوتا مثلاً طائفہ یا امت یا ان کے ہم معنی کوئی لفظ ؟
تیسرا یہ کہ یہاں کسی ایک لفظ سے بھی نہ تو یہ بات نکلتی کہ یہ ایک ایسے گروہ کا ماجر بیان ہو رہا ہے جس کا معاملہ ابھی معلق ہے اور نہ یہ بات نکلتی کہ ان کو عراف کی یہ سیر کرانے سے مقصود کیا ہے حالانکہ موقع ایسا ہے کہ یہ بات واضح ہونی چاہیے تھی۔
چوتھا یہ کہ یہ لوگ اہل جنت اور اہل دوزخ کو جس انداز میں مخاطب کریں گے، ان کو مخاطب کر کے جو جو باتیں فرمائیں گے اور ان کے ساتھ جس اعزاز و اکرام کا معاملہ مزکور ہوا ہے وہ سب اس امر کے خلاف ہے کہ یہ ایک ایسے گروہ کا ذکر ہو جس کی اپنی نجات کا معاملہ ابھی معلق اور جس کی اپنی کارگزاری کی نوعیت یہ ہو کہ نیکی اور بدی دونوں برابر برابر ہوکر رہ گئی ہوں۔ قراان کے بیان سے واضح ہے کہ یہ لوگ اہل جنت کو مبارکباد دیں گے، اہل دوزخ کے لیڈروں کو سرزنش اور ملامت کریں گے کہ تم دنیا میں بہت اتراتے اور اکڑتے رہے ہو، بتاؤ تمہاری جمعیت اور تمہارا سارا سرمایہ غرور کہا گیا ؟ ان کو لتاریں گے کہ تم خدا کی ساری نعمتوں کا اجارہ دار تنہا اپنے آپو کو سمجھتے تھے، غریب مسلمانوں کو کسی فضل کا سزوار نہیں سمجھتے تھے، اب دیکھو تم کہا ہوں اور وہ کہاں ہیں ؟ آخر میں اہل جنت کو تمیکن اور دوام و استمرار کی بشارت دیں گے، غور کیجیے کہ یہ ساری باتیں ایسے لوگوں کی زبان سے کس طرح نکل سکتی ہیں جنہیں خود اپنی نجات کی طرح کی باتیں کسی مذبذبت و متردد گروہ کے منہ سے نکل سکیں اور نہ اخلاقی پہلو سے یہ ایسے لوگو کی زبان سے زیب دیتی ہیں جن کے اپنے کارنامے کچھ زیادہ وقیع نہ ہوں ۔
ان وجوہ سے ہمارے نزدیک یہ قول اپنی شہرت کے باوجود کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ صحیح قول ہمارے نزدیک دوسرا ہے۔ ابن جریر نے یہ قول اپنی مجاہد کی طرف منسوب کیا ہے جن کا مرتبہ تفسیر میں معلوم و معروف ہے۔ مجاہد نے علماء اور صلحاء سے مراد ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو لیا ہے جو دنیا میں حق و باطل کی کشمکش میں حق کے علم بردار، خیر کے داعی اور منکر سے روکنے والے رہے ہیں۔ جنہوں نے حق کی حمایت میں اہل باطل کے چرکے سہے ہیں اور جو مظلوموں کی مدافعت میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوئے۔ ایسے علما و فقہاء یا بالفاظ دیگر رجال امت بلا شبہ قیامت کے دن اس اعزاز کے سزوار ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اعراف کی بلندیوں سے جنت اور دوزخ دونوں کا مشاہدہ کرائے تاکہ وہ حق و باطل دونوں کا آخری انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور اپنی زبانوں سے رفقائے حق کو مبارک باد دیں اور دشمنان حق کو سرزنش کریں ۔
وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ۔ یہ لوگ اعراف کی بلندیوں سے سب سے پہلے اہل جنت کو سلامتی و مبارکی کا پیغام دیں گے۔ لم یدخلوہا و ھم یطمعون سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کو جنت میں بھیجنے سے پہلے ہی یہ مشاہدہ کرایا جائے گا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کی سچائی ہر پہلو سے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جنت میں داخل ہوں۔ وھم یطمعون کے الفاظ سے ان کی تواضع جھلکتی ہے۔ باوجودیکہ یہ سارا اعزاز و اکرام صاف شہادت رہا ہوگا کہ اللہ کے ہاں ان کا مرتبہ و مقام کیا ہے لیکن وہ اپنی تواضع و فروتنی کے سبب سے اپنے آپ کو امیدوار رحمت ہی کے درجے ممیں سمجھیں گے چنانچہ یہاں الفاظ ٹھیک ٹھیک ان کی ذہنی کیفیت کے اعتبار سے استعمال ہوئے ہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ جو لوگ اللہ کی شانیں جانتے ہیں وہ اپنے آپ کو امید اور طمع کے درجے سے اونچا کبھی نہیں لے جاتے، یہ تنگ ظرفوں کا شیوہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے میں بہک جاتے ہیں۔ حضرت ابراہی خلیل اللہ جیسے جلیل القدر پیغمبر فرماتے ہیں، والذی اطمع ان یغفر لی خطیئتی یوم الدین (شعراء :82) (اور وہ کہ جس سے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ جزا و سزا کے دن میری غلطی معاف فرمائے گا) ہمارے حضور نے ایک مرتبہ فرمایا، کوئی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ بھی ؟ ارشاد ہوا ہاں میں بھی، الا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ، میں بھی اسی وقت جنت میں جاؤں گا، جب اللہ کی رحمت مجھے ڈھانک لے ۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- تدبر قرآن ، سورۃ الاعراف آیت 46 ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ