وعدۂ الست یا عہد فطرت کیا ہے ؟

ارشاد باری تعالی ہے : 

 وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  ۭ قَالُوْا بَلٰي  شَهِدْنَا ، اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ ،  اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ، وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ  

ترجمہ:  "  اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا " کیا میں تمارا رب نہیں ہوں؟"  انہوں نے کہا  "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں " ۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ  ہم اس بات سے بےخبر تھے یا یہ نہ کہنے لگو کہ " شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا" ۔  دیکھو، اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں ۔ 

(سورۃ الاعراف : 133 تا 134)

--------------------------------------

ان آیات کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں : 
اوپر کا سلسلہ بیان اس بات پر ختم ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بندگی و اطاعت کا عہد لیا تھا۔ اب عام انسانوں کی طرف خطاب کر کے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، درحقیقت تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس میثاق کی کہاں تک پابندی کی ۔

جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پر پیش آیا تھا۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کعب نے غالباً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے۔ وہ فرماتے ہیں :۔

”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“۔

اس معاملہ کو بعض لوگ محض تمثیلی انداز بیان پر محمُول کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالم خارجی میں پیش آیا۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان گیا گیا ہے اور صرف بیان واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں میں پیش کیا جائے گا۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکل اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع ان تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعدی از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے، ورنہ حقیقت میں تو نسل انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب از امکان ہے، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحب عقل و شعور اور صاحب تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابل تعجب نہیں، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابل تعجب ہوتا ۔

اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسل آدم سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں۔ انہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہوسکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوع انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بےخبری کے سبب سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکلیہ بری ہوسکتا ہے۔ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغاز آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہوچکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہوجاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا، لیکن وہ تحت الشعور (Sub-conscious mind ) اور وجدان (Intuition ) میں یقیناً محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة (Potentially ) موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اسے بالفعل کردیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت، کوئی ماحول تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی، جو اس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو، ہرگز پیدا نہیں کرسکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف (Pervert ) کر دیں۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے : 

وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں ۔

 ان سب کے ظہور میں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی)، تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔ 

ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر، پردہ ڈال کر، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کرسکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کرسکتیں، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی (Conversion ) ممکن ہوتی ہے۔

ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت، اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے :

اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں ابھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

اس کے مطابق حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ ابھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کار فرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں ۔

اس کو ابھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان کو قرآن میں مذکِّر (یاد دلانے والے) ذِکر (یاد) تذکرہ (یادداشت) اور اب ان کے کام کو تذکیر (یاد دہانی) کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔ 

نفس انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے ابھر آیا۔

پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، دہریت، الحاد، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اسے ابھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں ۔

بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کرسکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کرسکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہوگا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں روز ازل کے اس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الاشہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اٹھیں، اپنی اور اپنے گردوپیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیان حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ ابھرنے پر آمادہ ہوا، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کَافِرِیْنَ (الاَنعام، ١٣٠)۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تفہیم القرآن ، سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :133، 134، 135