سورة الْمُلْک : زمانہ نزول، موضوع اور مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


نام :  پہلے فقرے تبارک الذی بیدہ الملک کے لفظ المُلک کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔


زمانۂ نزول :


کسی معتبر روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس زمانے میں نازل ہوئی ہے، مگر مضامین اور انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔


موضوع اور مضمون :


اس میں ایک طرف مختصر طریقے سے اسلام کی تعلیمات کا تعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف بڑے مؤثر انداز میں ان لوگوں کو چونکایا گیا ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ اسلام کی ساری تعلیمات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقصد بعثت کو پیش کرتی ہیں، مگر تفصیل کے ساتھ نہیں بلکہ اختصار کے ساتھ، تاکہ وہ بتدریج لوگوں کے ذہن نشین ہوتی چلی جائیں۔ اس کے ساتھ ان میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی غفلت دور کی جائے، ان کو سوچنے پر مجبور کیا جائے، اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا جائے۔


پہلی پانچ آیتوں میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا خلل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں بھی اللہ تعالیٰ ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی قدرت لامحدود ہے۔ اس کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں وہ بےمقصد پیدا نہیں کردیا گیا ہے بلکہ یہاں اسے امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس امتحان میں وہ اپنے حسن عمل ہی سے کامیاب ہوسکتا ہے۔


آیت 6 سے 11 تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں جو آحرت میں نکلنے والے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں اس دنیا میں ان نتائج سے خبردار کردیا ہے۔ اب اگر یہاں تم انبیاء کی بات مان کر اپنا رویہ درست نہ کرو گے تو آخرت میں تمہیں خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اس کے مستحق ہو۔ 


آیت 12 سے 14 تک یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بےخبر نہیں ہو سکتا۔ وہ تمہاری ہر کھلی اور چھپی بات، حتٰی کہ تمہارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے۔ لہٰذا اخلاق کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ انسان اس اَن دیکھے خدا کی بازپرس سے ڈر کر برائی سے بچے، خواہ دنیا میں کوئی طاقت اس پر گرفت کرنے والی ہو یا نہ ہو اور دنیا میں اس سے کسی نقصان کا امکان ہو یا نہ ہو یہ طرز عمل جو لوگ اختیار کریں گے وہی آخرت میں بخشش اور اجر عظیم کے مستحق ہوں گے۔


آیت 15 سے 23 تک ان پیش پا افتادہ حقیقتوں کی طرف، جنہیں انسان دنیا کے معمولات سمجھ کر قابل توجہ شمار نہیں کرتا، پے در پے اشارے کر کے ان پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو۔ خدا ہی نے اسے تمہارے لیے تابع کر رکھا ہے، ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوند خاک ہوجاؤ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہیں تہس نہس کر کے رکھ دے۔ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو دیکھو۔ خدا ہی تو ہے جو انہیں فضا میں تھامے ہوئے ہے۔ اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو۔ خدا اگر تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اس سے بچا سکتا ہے اور خدا اگر تمہارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انہیں کھول سکتا ہے؟ یہ ساری چیزیں تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ مگر انہیں تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں سے کام نہیں لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے خدا نے تمہیں دیے ہیں۔ اسی وجہ سے راہ راست تمہیں نظر نہیں آتی۔


آیت 24 سے 27 تک بتایا گیا ہے کہ آخر کار تمہیں لازماً اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔ نبی کا کام یہ نہیں ہے کہ تمہیں اس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے۔ اس کا کام بس یہ ہے کہ تمہیں اس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کردے۔ تم آج اس کی بات نہیں مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وہ وقت لا کر تمہیں دکھا دیا جائے۔ مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں سے اسے دیکھ لو گے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلد لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے۔


آیت 28 اور 29 میں کفار مکہ کی ان باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف کرتے تھے۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوستے تھے اور آپ کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہلاکت کی دعائیں مانگتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ تمہیں راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں یا اللہ ان پر رحم کرے، اس سے آخر تمہاری قسمت کیسے بدل جائے گی؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمہیں بچائے گا ؟ جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اس پر توکل کیا ہے، انہیں تم گمراہ سمجھ رہے ہو۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بات کھل جائے گی کہ حقیقت میں گمراہ کون تھا۔


آخر میں لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھ دیا گیا ہے اور اسی پر سوچنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں، جہاں تمہاری زندگی کا سارا انحصار اس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے، وہاں اگر یہ پانی زمین میں اتر کر غائب ہوجائے تو خدا کے سوا کون تمہیں یہ آب حیات لا کر دے سکتا ہے؟